The news is by your side.

عیدگاہ سے واپسیِ، موت تعاقب میں تھی

پریم چند کا ننھا حامد سترسال کا بزرگ میاں حامد ہو گیا تھا۔ اسے اپنے بچپن کا ہروا قعہ یاد تھا۔ اُ سے یہ بھی یاد تھا کہ وہ بچپن میں عید کی نماز کے لیے گیا تھا تو واپسی میں تین پیسے کا چمٹا خرید کرلایا تھا۔ اُ س وقت اس کے دوستوں نے اس کا مذاق بنایا تھا لیکن اس کے دوستوں کے خریدے کھلونے یکے بعد دیگرے میدان چھوڑ کرفرارہو گئے تھے۔ اس کے چمٹے کی ایک ضرب نے سب کو بے کارکردیا تھا۔

گھرآنے پراس کی دادی پہلے اس سے ناراض ہوئی تھیں اورپھراُ سے خوب پیار کیا اور دعائیں دی تھیں۔ اس کے وا لدین بچپن ہی میں اللہ کے یہاں چلے گئے تھے، اُسے ان کی صورتیں بھی یاد نہیں تھیں بعد میں دادی نے اُ سے غریبی، مجبوری، بے بسی اور لا چا ری کے لقمے کھلا کھلا کرپالا تھا۔ اس کا بچپن دوسرے بچوں سے مختلف تھا۔ دونوں دادی پوتے ایک دو سرے کی کائنات تھے۔ اُ سے وہ دن بھی یاد تھا جب قیامت صغریٰ نے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ایک رات جب وہ سو رہا تھا بہت تیزآ ندھی آئی تھی۔ ہوا اور پانی نے طوفان کی شکل اختیار کرلی تھی۔ بہت سے پیڑ، پھوس کی چھتیں، کچی دیواریں اور جھونپڑے زمین سے اپنا رشتہ ختم کر چکے تھے۔ ایسے میں اس کی دادی جو گھر کے اسارے میں محو خواب تھیں، چھان گرنے سے دب کر اپنے بچوں کے پاس چلی گئی تھیں۔ وہ دادی دادی کرتا روتا رہ گیا تھا۔ گاؤں کے ہی لوگوں نے دفن وغیرہ کا انتظام کیا تھا۔ وہ تقریباً پندرہ سال کا تھا۔ اس کا حال ایسا تھا گویا زندگی کی دوڑ میں تنہا رہ گیا ہو۔ اس کا اس بھری پری دنیا میں دادی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ ان کے جانے کے بعد پڑوس کے بابا سکھ دیو نے اس کی ہمت بندھا ئی تھی۔ وہ اُ سے اپنے گھر لے گئے اوراُسے اپنے بچے کی طرح پالا پوسا۔ گاؤں کے اسکول سے پانچویں تک پڑھنے کے بعد اُس نے پاس کے ایک چینی مل میں مزدوری کا کام شروع کردیاتھا۔

’’بابا……بابا…..مجھے بیلون لینا ہے‘‘۔

اس کے آٹھ سالہ پوتے ساجد نے ایک غبارے والے کو دیکھ کراسے ہا تھ پکڑکرجھنجھوڑا تو وہ ماضی کے صحرا میں چلتے چلتے اچانک رک گیا تھا، ماضی کے واقعات بھی چھلا وے کی طرح غائب ہو گئے تھے۔ وہ اپنے اکلوتے پوتے کے ساتھ عید گاہ جارہا تھا۔ عید تو ہرسال آتی ہے اورہرسال وہ عید کی نماز ادا کرتا تھا لیکن اس باروہ اپنے پوتے کے ساتھ پہلی دفعہ عید گاہ جا رہا تھا۔

’’بیٹا ابھی نہیں، واپسی پر لینا۔ابھی نماز کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘

اس کے گاؤں سے عیدگاہ تقریباً 5 کلو میٹر دورتھی۔ اس کا اپنا گا ؤں ہندو اکثریتی گاؤں تھاوہاں مسجد نہیں تھی پاس کے گاؤں میں مسجد تھی۔ اکثر مسلمان جمعہ اورعید، بقر عید کی نما زوں کے لیے وہیں چلے جاتے تھے۔ حامد کو عید گاہ میں ہی عید کی نماز پڑھنا اچھا لگتا تھا۔ لیکن کبھی موسم کی خرابی، کبھی وقت کی تنگی اور کبھی کام کی فراوا نی کے باعث وہ ہرسال عید گاہ نہیں جاپاتا تھا۔ اس بار وہ کافی عرصے بعد عیدگاہ کے لیے اپنے پوتے ساجد کے ہمراہ نکلا تھا۔ گاؤں سے نماز کے لیے ایک ٹولہ روانہ ہوا۔ کچھ نو جوان اسکو ٹراوربائیک سے نکلے تھے۔ کچھ پیدل ہی چل رہے تھے۔

کتنی خو شی اوررونق تھی ان کے چہروں پر۔ واقعی عید اللہ کا انعام ہے۔ ایک ماہ کے روزے رکھنے کے بعد،عید کی خوشی کاعالم ہی کچھ اورہوتا ہے۔ اللہ مسلمانوں کی محنت، صبر، لگن اور للہیت کے بدلے عید کے دن ان کے گناہ بخش دیتا ہے۔ میاں حامد نے رمضان کے پو رے روزے رکھے تھے۔ گھرمیں اس کی بہوبھی روزے کی پابندی کرتی تھی۔ ایک پوتا اورایک پو تی……بس یہی کائنات تھی اس کی۔ بیٹا وا حد…..گذشتہ دنوں ہو نے والے ہندو مسلم فساد کی نذرہوگیا تھا۔

بیٹے کی یاد آتے ہی اچانک ذہن کے ساتوں طبق روشن ہو گئے۔ چار سال قبل ،پس منظر کا حصہ بن چکے منا ظر، یکے بعد دیگرے نظروں کے سا منے آنے لگے۔

ملک پربڑا برا دن آیا تھا۔ سرخ آ ندھی اس بارشہروں سے اُٹھی تھی جوشہروں، شہروں قصبات اوردیہات میں پھیل گئی تھی۔ ہندو مسلم منافرت…..ایک دوسرے کے خون کے پیا سے لوگ……عبا دت گا ہوں کو مسمار کر نے کا جنون……کیا عبادت گاہوں کی مسماری سے کوئی قوم ختم ہو جاتی ہے؟یہ وہی ہندو مسلم تھے جنہوں نے شا نے سے شا نہ ملا کر ملک کو آزاد کرایا تھا۔ آج کیا ہوگیا ہے ان کو؟ کیوں ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں۔ واحد بے چارہ ان حالات سے بے خبر تھا،اس نے تو گاؤں میں آ نکھ کھولی تو اپنے باباسکھ دیو، چاچا بلدیو اور اپنے ہم عمر دوست رام اور کنور پال کو دیکھا تھا۔ وہ تو انہیں کے درمیان کھیلتا ہوا بڑا ہوا تھا۔ پاس کے ہی شہر میں وہ ایک بیکری میں مزدوری کا کام کرتا تھا۔ اس کی تنخواہ اور گا ؤں کی محنت مزدوری سے میاں حامد کسی طرح گھر چلا رہے تھے۔ شہر میں آنے والی سرخ آندھی نے بڑی تباہیاں مچا ئی تھیں۔ واحد بھی اس سرخ آ ندھی کی زد میں آگیا تھا۔ اسے اس کے ہی سا تھیوں نے تہہِ تیغ کردیا تھا۔
غضب تو اس وقت ہوا جب وا حد کی لاش گا ؤں پہنچی۔

’’ میاں حامد……میاں حامد….واحد کی لاش ….آئی ہے‘‘بلدیو نے میاں حا مد کو خبردی تو اُسے جیسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ یا۔ وہ بلدیو کوپکڑ کرچلایا۔

’’ یہ کیا مذاق ہے۔‘‘

ابھی وہ بلدیو کے کا ندھوں کو پکڑ کر ہلا ہی رہا تھا کہ ایک گاڑی دروا زے پر رکی۔ گا ڑی کا دروا زہ کھلا اور اسٹریچر پر وا حد کی لا ش لیے دو لوگ اندر داخل ہو ئے۔ لاش کو چارپائی پر لٹا کر الٹے قدموں لوٹ گئے۔ کسی میں ان سے وا حد کی موت کے با رے میں پو چھنے کی ہمت نہیں تھی۔ سا رے گا ؤں والوں کے سر جھکے ہو ئے تھے۔ ایک ایک کر کے سب کو پتہ چل گیا تھا کہ واحد کو شہر میں اس کے سا تھی مزدوروں نے کاٹ ڈالاتھا۔ گا ؤں کے ہندو، خود کو واحد کا قاتل محسوس کررہے تھے۔ میاں حا مد کی حالت عجیب تھی،ان پر سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ آواز بند ہو گئی تھی۔ وہ لاش کو ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہے تھےگویا انہیں امید ہو کہ واحد اب اٹھا اورتب اٹھااور اٹھتے ہی بابا کہتا ہواان سے لپٹ جائے گا۔ اچانک بہت زور سے چیختے ہوئے میاں حامد زمین پر بے سدھ گر پڑے اور بے ہوش ہوگئے۔ واحد کی بیوی شکیلہ پربھی بے ہوشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ ساجد اورنازو اپنی ماں کے بے ہوش جسم سے لپٹے رو رہے تھے۔ بلدیو اور گاؤں کے پردھان ٹھاکرامر پال نے تدفین کا انتظام کیا۔ واحد کے جانے کے بعد سے میاں حامد کی حالت اس بوڑھے کی سی ہوگئی تھی جو لاغرہو، کمر جھکی ہو اوراس کی لاٹھی اس سے چھین لی گئی ہو۔ میاں حامد نے بچپن سے ہی بڑے نازک حالات دیکھے تھے۔قحط پڑتا تھا تو کھانے کے لالے پڑجاتے۔ مٹر، باجرہ، بے جھڑ اورجو کی روٹیاں بھی دن میں ایک وقت مل جاتیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے۔ گھر، گھرکیا تھا۔ بس ایک کمرہ اوراسارا تھا۔ کھیتی کی زمین نہیں تھی ۔اس کے باپ دادانے بھی دوسروں کے یہاں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا تھا اور ایک چھوٹا سا گھر بنالیا تھا۔ شروع میں باباسکھ دیو کے گھر سے ہی اسے وقت بے وقت کھانا ملتا تھا بعدمیں اس نے خود بھی کھانا بنانا شروع کردیا تھا۔

’’بابا……او بابا…..وہ تتلی پکڑدونا ……….کتنی اچھی ہے وہ ‘‘

ساجد کی آواز نے ایک بار پھر انہیں سوچ نگر کی گلیوں سے حقیقت آباد کے کچے راستوں پر لادیا تھا۔اس کا پوتا ایک تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ تتلی کبھی ادھر کبھی ادھرجاتی، لیکن ساجد کے پہنچتے ہی اڑجاتی ۔ انہیں ایک پل کو لگا جیسے تتلی ان کی خوشی ہو، جو ہمیشہ اس سے آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے لمحہ بھر کو لگتا کہ اب ہاتھ آئی …..اب آئی ۔ لیکن پھِر پھُرسے اڑجاتی۔ بے چارے ساجد کو کیا پتہ کہ یہ تتلی ہماری قسمت میں نہیں ؟ہماری قسمت میں تو ہمیشہ کے دکھ ہیں جو سردی کی راتوں جیسے طویل ہوتے ہیں۔

’’ساجد بیٹے ۔نہیں ۔تتلی کے پیچھے نہ بھاگو‘ گر پڑو گے‘ کپڑے خراب ہوجائیں گے۔‘‘

کپڑے،کپڑے تو ساجد نے پہنے تھے مگر نئے نہیں تھےجبکہ ساجد نے پچھلے ہفتے ضد کی تھی۔
’’بابا مجھے بھی نئے کپڑے سلواؤ نا،میں بھی حشمت کی طرح نئے کپڑوں میں عید گاہ جاؤں گا۔‘‘

’’اچھا بیٹا…لادیں گے‘‘بوڑھے حامد میاں نے مجبوراً کہا۔

اور انہوں نے ساجد کو پرانے کپڑوں کے ڈھیر میں سے ٹھیک ٹھاک سے کپڑے لادیے تھے ۔اتفاق سے چینی مل کے باہر پرانے سستے کپڑوں کا ایک ٹھیلہ عید کے سبب لگا تھا۔ اس نے سرخ رنگ کی شرٹ اور نیلی پینٹ لے جا کر بہو کو دیے۔
’’بہو انہیں دھودینا۔اور تہہ کرکے نیچے رکھ کر اس پر پہلے پھونس پھر بستربچھا دینا ۔میں سو جاؤں گا۔ کپڑوں پر استری ہوجائے گی ۔‘‘

بہو نے ایسا ہی کیا تھا۔ ساجد کو ماں اور دادا نے بہکالیا تھا۔ چھوٹی نازو کی طبیعت خراب تھی اسے ماتا نکل آئی تھی۔ وہ بہت کمزور ہوگئی تھی ۔ہر وقت روتی رہتی۔ مکھیاں اسے پریشان کرتیں ۔حامد مکھیوں کو دیکھ کر کئی بار سوچتا ۔’’اللہ نے مکھیاں کیوں پیدا کی ہیں ۔ یہ تو سب کو پریشان ہی کرتی ہیں۔‘‘پر پھر خود ہی دل ہی دل میں اللہ سے معافی مانگتا کہ اللہ نے ہر چیز سوچ سمجھ کر ہی پیدا کی ہے ۔

عید سے دو دن پہلے گاؤں کے حاجی لطیف ان کے پاس آئے تھے اور زکوٰۃ کے تین سو روپے دے گئے تھے۔انہوں نے کچھ پیسوں سے گھر کی ضروریات کو پورا کیا تھا۔ ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ نازو کی بیماری اور گھر کے خرچے میں لگ جاتا تھا ۔عید کے لیے پیسے کہاں سے آتے۔ زکوٰۃ کے پیسوں سے انہیں کچھ راحت ملی تھی۔انہوں نے سوچا تھا کہ اب کی عید پر وہ ساجد کو ریموٹ سے چلنے والی کار اور نازو کو پلک جھپکنے والی گڑیا خرید کرلا ئیں گے۔ بہو جو جوانی ہی میں بیوہ ہوگئی تھی ‘ کے لیے ایک سوٹ لائیں گے۔عید گاہ جانے سے پہلے انہوں نے نہا کر اپنے پرانے دھلے کپڑے پہنےپھر ساجد کو تیار کیا۔

ساجد کی ماں اسے عیدگاہ بھیجنے کو تیار نہ تھی لیکن ساجد کی ضد اور میاں حامد کی مرضی کے آگے وہ مجبور ہوگئی تھی۔ شوہر کی موت کے بعد اسے تو ہر وقت خدشہ لگا رہتا تھا کہیں اس کے بیٹے کو کچھ نہ ہوجائے۔ گاؤں کے لوگ ساجد کو بہت پیارکرتے تھے، وہ تھا ہی بہت پیارا۔ عید گاہ چلنے سے پہلے انہوں نے سویّاں کھائیں۔ پھرایک ایک روپیہ سب کو عیدی کے دیے۔ انہوں نے بلدیو کے بچوں کو بھی عیدی دی تھی۔ وہ ہرسال ان کے بچوں کو عیدی دیا کرتے تھے۔ ساجد نے اپنے اور نازو کے روپے اپنی جیب میں رکھ لیے تھے۔ گاؤں کے دس بارہ بڑے بوڑھوں، بچوں پر مشتمل یہ ٹولہ سفید کرتا پاجا مے میں ملبوس سرپر ٹوپیاں لگائے عید گاہ کے لیے نکلاتھا۔عید گاہ تک جانے کے لیے تین گاؤں کو پارکرنا پڑتا تھا۔ سردیوں کا زمانہ تھا۔ راستے کے دونوں جانب ہری فصلیں لہلہارہی تھیں۔ گیہوں کے کھیتوں پر شباب کا رنگ تھا۔ سرسوں پھول رہی تھی، ہرے اور پیلے رنگ نے زمین کو اس کنواری دوشیزہ سا بنا دیا تھا جس نے سبز رنگ کے کپڑوں پر پیلا دوپٹہ اوڑھ رکھا ہو، بلکہ ایسا بھی گمان ہورہا تھاگویا قدرت زمین کے ہاتھ پیلے کرنے کی تیاری کر رہی ہو۔ بَٹیا کے دونوں جانب فصلوں کی مہک دیوانہ بنا رہی تھی ۔ کہیں مٹرکے سفید اور جامنی پھول، کہیں ایکھ کے کھیت ۔ گاؤں میں ایک آدھ کولہو بھی نظر آجاتا۔ کولہو سے گڑکی بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی ویسے اب زیادہ تر کسان شوگر ملوں میں ہی گنا ڈالتے تھے اورنقد روپے لے آتے ۔اب گاؤں میں بھی بہت کچھ بدل گیا تھا۔گاؤں کی نئی نسل کے بچے جب سے پڑھ لکھ گئے تھے اور کچھ نے باہر سروس شروع کردی تھی گاؤں کا ماحول تبدیل ہونے لگا تھا۔اب وہ پہلے جیسی بے لوث محبت نہیں رہی تھی۔پہلے گاؤں کے کسی ایک شخص کا داماد سارے گاؤں کا داماد ہوتا تھا۔اس کی اتنی خاطر کی جاتی کہ وہ خاطر سے پریشان ہوجاتا تھا۔ ہندو مسلم شیروشکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہونا ، ایک دوسرے کے کام کروانا ۔ چھان اٹھوانا ، ایکھ بُوانا ، شادی بیاہ میں ہاتھ بٹاناان کا معمول تھا۔

’’میاں حامد…. میاں ….تنک سستائے لیو ….رس پی لیو ۔ گرم گڑ کھالیؤ۔‘‘

مُراد پور گاؤں کے کولہو والے بزرگ چاچا ایشور نے عید گاہ جاتے قافلے کو روک لیا تھا۔ مُراد پور کے گاؤں کے مسلم بھی عید گاہ جانے کو تیار تھے ۔ جلدی جلدی قافلے کی خاطرکی گئی۔ قافلہ پھرآگے بڑھ گیا۔ حامد کو سکون ہوا کہ چلو ابھی بڑے بزرگوں میں کم از کم اتنی محبت اور خلوص تو باقی ہے۔ قافلہ اب پکی سڑک پر آگیا تھا ۔

میاں حامد نے اپنے پوتے ساجد کو کندھے پر بٹھا لیا تھا۔ قافلہ پکی سڑک کی ایک جانب قطار بنا کر چل رہا تھا ۔ اچانک ایک تیز رفتار بس قافلے کے کے نزدیک سے گذری ۔ سب لوگ جلدی سے ایک طرف کو نہ ہو گئے ہوتے تو معاملہ خراب ہوسکتا تھا۔

’’ابے اے کٹوؤ!کہاں جارہے ہو ………؟‘‘

موٹر سائکل پر سوار تین کم عمر اوباش قسم کے نوجوان، زور سے چلّا تے ہوئے برق رفتاری سے گذر گئے۔ ننھا ساجد چونک گیا ۔

’’بابایہ…..کٹوا کیا ہوتا ہے….؟‘‘

’’کچھ نہیں بیٹا …….یہ گندے بچے تھے …..تم ایسے نہ بننا ….‘‘

میاں حامد کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ زمانہ کتنا بدل گیا تھا۔ بڑے چھوٹوں کا امتیازہی نہ رہا ۔ بیٹے ،باپ کے سامنے بیٹھتے بھی نہیں تھے ۔ میاں بیوی کسی کی موجود گی میں ساتھ بیٹھنے سے بھی کتراتے تھے ۔ بہو ،ساس سسر کا احترام کرتی تھی۔آج سب الٹ ہوتا جارہا ہے۔ یہ سب فلموں اور فیشن سے ہوا تھا بچوں میں فلموں کا شوق دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ وہیں سے خرافات سیکھتے ہیں ۔فیشن اللہ توبہ ! لڑکیاں بھی پتلون پہننے لگی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بازو کی قمیضیں ۔دوپٹا یا تو گلے میں پٹے کی صورت یا پھر ندارد۔ گاؤں بھی تبدیل ہوگئے تھے۔کچے مکانوں کی جگہ پختہ اور بڑے مکان ، موٹر سائیکلیں اور کاریں اب اکثر دکھائی دیتیں ۔ پہلے کسی کے گھر کار ہوتی تو اسے بڑا رئیس مانا جاتا، لوگ اس کی مثالیں دیتے تھے۔ گاؤں کو شاہراہوں سے ملانے والی کچی سڑکیں کھڑنجے یا تار کول کی بننے لگی تھیں ۔ علاقے میں فیکٹریاں اور مل لگنے لگے تھے۔ ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانیت ختم ہوتی جارہی تھی ۔

’’بابا عید گاہ کب آئے گی….؟‘‘

’’بس بیٹا ….وہ جو گاؤں دکھ رہا ہے نا ….بس اسی گاؤں میں ہے….‘‘

’’بھئی ذرا جلدی چلو….کہیں ایسا نہ ہو نماز چھوٹ جائے ۔رمضان کی ساری محنت ڈوب جائے گی۔‘‘

میاں حامد نے قافلے کے بڑے، چھوٹوں، سب کو نصیحت کی ۔اور سب جلدی جلدی قدم بڑھانے لگے۔کچھ ہی دیر میں وہ اسلام پورکی سرحد میں داخل ہوگئے تھے۔اسلام پورمسلم اکثریتی گاؤں تھا۔عیدگاہ کے راستے پر دونوں طرف میلہ لگا تھا۔ ساجد تو بے چین ہوا جارہا تھا۔ کہیں جھولے والے آواز لگا رہے تھے۔ کہیں غبارے دھاگوں سے بندھے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ گول گپے والے، چاٹ پکوڑی والے ، چھولے کی چاٹ ، دہی بڑے ،بتاشے والے، مکا کی کھیلوں والے ، کھلونوں کی تو بہت سی دکانیں تھیں،کسی دکان پر ہر مال پانچ روپے، کسی پر ہر مال دس روپے کا بورڈ لگا تھا۔ساجد کی نظر یں چار وں طرف بکھری بازار کی رونقوں کو دیکھ کرہونق ہوئی جارہی تھیں وہ سب کچھ خرید لینا چاہتا تھا۔

’’بھیا آجاؤ۔جلدی آؤ…..نماز کھڑی ہونے والی ہے۔‘‘

عید گاہ سے کئی لوگ راستے میں آنے والوں کو پکار رہے تھے۔ قافلے نے لپک کر عید گاہ میں قدم رکھا ۔ عید گاہ بہت بڑی نہیں تھی۔ مغرب کی طرف مسجد جیسی عمارت کی تقریباً بیس فٹ اونچی دیوار تھی جس میں کنگورے کٹے ہوئے تھے دیوار کے آخری سروں پر دو بلند مینار تھے۔ باقی دور تک خالی زمین جو سال میں دو نمازوں کے لیے اپنا دامن پھیلائے رہتی تھی۔عید میں بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ اسلام پور کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی یہیں نماز پڑھنے آتے تھے۔ میاں حامد بچپن سے اب تک نجانے کتنی بار عیدگاہ آئے تھے ۔ نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے تو ایسا لگتا گویا فرشتے زمین پر اترآئے ہوں ۔ نماز کے بعد اسلام پورکے لوگ آس پاس کے لوگوں کو بغیر کچھ کھائے پیئے واپس جانے نہ دیتے میاں حامد کے ساتھ کئی بار بلدیو چاچاکے بچے بھی آجاتے تھے۔ مسلمان نماز پڑھتے اور وہ سب کے جوتے چپلوں کی رکھوالی کرتے بعد میں عید گاہ میلے سے میاں حامد ان کے لیے کچھ نہ کچھ تحفے ضرور خریدتے۔ وہ سب اپنے بھائی ہی توتھے۔ وہ سب میاں حامد سے چھوٹے تھے۔ میاں حامد کو اچھی طرح یادتھاکہ ایک بار بلدیو چاچا نے اپنی ٹریکٹر ٹرالی نکالی تھی اور گاؤں کے سارے مسلمانوں کو بھرکر عید گاہ لائے تھے۔کتنا میل ملاپ تھالوگوں میں ۔گاؤں میں امن و امان تھا۔گاؤں کے حالات سیاست سے بدلے تھے۔ اب گاؤں میں بھی سیاست بڑھنے لگی تھی، پردھان اور گاؤں کے امیر لوگ ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہتے۔رات کو موٹر چوری کرواتے ، صبح کو ہمدردی جتانے پہنچ جاتے اور دو ایک دن بعد موٹر کہیں سے برآمد ہوجاتی۔اسی طرح بیل اور بھینس بھی غائب ہوجاتیں۔ انہیں اچانک دس سال قبل کا وہ واقعہ یاد آگیا جب اس نے ایک رات بابا سکھ دیوکی بھینس چراتے مکھیا کے بڑے لڑکے کو دیکھ لیا تھا۔

’’چور ……چور……دیکھو بھینس لے جارہا رہے ۔ چاچا …اوبابا، بھیا…..‘‘

اس کی آواز پر بھینس کو بیچ میں چھوڑ کر چور فرار ہوگئے تھے۔مگر اس نے ایک چور کو پہچان لیا تھا۔اور غضب تو اس وقت ہوگیا جب اگلے دن پنچایت میں اس نے مکھیا کے بیٹے کا نام سب کے سامنے کہہ دیا ۔ مکھیا کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا۔

’’تم جھوٹ بولت ہو ….میرا بیٹا نہیں کوئی اور ہوگا…..‘‘

’’نہیں ….نہیں….میں نے اپنی آنکھوں سے بیر پال کو دیکھا تھا…..‘‘

’’پنچوں یہ مسلمان ہے ….یہ ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔….‘‘

میاں حامد نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ بات اس کے کردار پر آجائے گی ۔ نفرت کیا ہوتی ہے ، اسے پتہ ہی نہ تھا۔اس نے تو کبھی کسی کو بری نظر سے بھی نہیں دیکھا ۔ کیا ہندو ، کیا مسلمان۔ وہ تو بچپن سے ہی بابا سکھ دیو کے گھر رہ کر بڑا ہوا تھا۔انہوں نے ہی اس کی شادی کروائی تھی ۔گاؤں کے کئی مسلمانوں نے اسے سمجھایابھی تھا کہ سکھ دیو کے گھر نہ رہے لیکن اس نے کسی کی نہ سنی تھی ۔ پھر بابا اسے بیٹا ہی تو مانتے تھے۔ہمیشہ اس کے دکھ سکھ میں شریک رہتے۔مکھیا کے جملے نے تو جیسے میاں حامد کے سینے کو گرم سلاخوں سے داغ دیا تھا۔اس کو اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ گم سم ہوگیا۔مانو اس کی زبان کاٹ دی گئی ہو ۔ لیکن اگلے ہی لمحے سکھ دیو اور ان کے خاندان والوں نے مکھیا اور اس کے بیٹے پر لاٹھیا ں برسانا شروع کردی تھیں ۔ دونوں طرف سے زوردار حملے ہورہے تھے۔اس سے قبل کے کچھ انرتھ ہوجاتا ، حامد میاں نے ایک زور کی چیخ ماری…..

’’بند کروخدا کے لیے…..!‘‘

اور واقعی لڑائی کو اچانک بریک لگ گئے تھے ۔

’’تم لوگ میرے اوپر لڑ رہے ہونا۔چلو میں گاؤں چھوڑ کرہی چلا جاتا ہوں ۔‘‘

میاں حامد کی آنکھوں سے آنسو روا ں تھے، انہوں نے اپنا منھ دونوں ہتھیلیوں میں چھپا رکھا تھا۔ان کے اتنا کہتے ہی مکھیا اور بلدیو چاچا ایک ساتھ ان کی اور لپکے تھے۔

’’نہیں حامد……تم گاؤں نہیں چھوڑو گے….‘‘

اور پھر وہ ہوا جو گاؤں والوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔مکھیا نے اپنے بیٹے بیر پال کو سب کے سامنے مارنا شروع کر دیا ۔
’’اس کے کارن سب کچھ ہوا ہے…….‘‘

بڑی مشکل معاملہ رفع دفع ہوا تھا۔ گاؤں میں حامد کی الگ پہچان تھی۔وہ ایک ایماندار مسلمان تھا ۔ جو جتنا مسلمانوں کا ہمدرد تھا اتنا ہی ہندوؤں کا بھی۔

’’اللہ اکبر….‘‘

امام صاحب نے نیت باندھ لی تھی سب نے دو رکعت نماز ادا کی ۔ خطبہ سنا اور دعا مانگنے لگے۔میاں حامد نے خدا کی بار گاہ میں ہاتھ اٹھائے۔ان کے لب تھر تھرا رہے تھے،ہاتھ بھی لرزنے لگے۔’’اے خدا …..میرے خدا….ہم بڑے گنہہ گار ہیں ۔ اے خدا ہمیں مسلمان کے ساتھ ساتھ انسا ن بھی بنا ۔ مجھے انسانوں کی خدمت کرنا سکھا۔یہ جو ایک عجیب قسم کی آندھی شہروں سے گاؤں کی طرف چلی آرہی ہے ہمیں اس سے محفوظ رکھ……‘‘
دعا کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ میا ں حامد جھک کر اپنے پوتے ساجد سے گلے ملے۔گلے ملتے وقت انہیں بے پناہ طمانیت اور مسرت کا احساس ہوا ۔انہیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ ساجد کے اندر سرایت کرگئے ہیں۔ایک چھوٹا بچہ بن گئے ہیں بچہ جو معصوم ہوتا ہے جو فرشتہ صفت ہوتا ہے۔

’’بابا ….بابا…..آؤ نا کھلونا لیں گے…..‘‘

ساجد نے ان کا ہاتھ کھینچاتو وہ دکانوں کی طرف چل دیے۔ساجد نے بہت سے کھلونے دیکھے ۔ سب کو فیل کرتا گیا۔آخر میں اسے اسے ریموٹ سے آگے پیچھے ہونے والی ایک خوبصرت سی کار پسند آگئی۔ساجد نے ضد کرلی بابا میں تو اسے ہی لوں گا۔

’’بھیا کتنے کی ہے…..؟

’’بابا پورے سو روپے کی ‘‘

’’سوروپے. …؟‘‘میاں حامد کا منھ حیرت سے کھل گیا تھا۔

وہ سوچ میں پڑ گئے ۔ ان کی جیب میں کل ڈیڑھ سو روپے رکھے تھے۔اگر وہ کھلونا خرید لیتے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا۔ لیکن وہ پوتے کا دل بھی نہ توڑ نا چاہتے تھے۔آخر کار ساجد کی ضد جیت گئی ۔مول بھاؤ کے بعد سودا پچاس روپے میں ہوگیا۔ پھر دونوں نے نازو کے لیے ایک آنکھیں مٹکاتی گڑیا خریدی ،بابا سکھ دیو کے بچوں کے لیے بھی کھلونے اور دوسراسامان خریدا۔سامان لے کر وہ نکل ہی رہے تھے کہ اچانک گولیوں کے دھماکوں سے فضا گونج اٹھی۔اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔در اصل اس بار عید اور کانوڑیاترا آس پاس ہی تھے۔ سارے علاقے میں دہشت تھی ۔ ہر طرف زعفرانی رنگ لہرا رہا تھا۔ پتہ چلا کہ کانوڑیوں کا ایک جتھا اسلام پورسے گزررہا تھا ۔ان پر کسی مسلمان نوجوان نے پتھر مار دیا تھا بس کیا تھا۔ کارسیوکوں نے مسلمانوں کو مار نا شروع کردیا تھا۔خبر پھیلتے ہی گاؤں کے مسلمانوں نے گولیاں چلانی شروع کردی تھیں ۔کارسیوکوں کی حمایت میں بھی بندوقوں نے گولیاں اگلنی شروع کردی تھیں ۔ گولیوں کا نشانہ بن کر کئی لوگ لاشوں میں تبدیل ہوچکے تھے ۔

میاں حامد نے ساجد کو گود میں اٹھا لیا اور ایک طرف کو بھاگنا شروع کردیا ۔ انہوں نے قافلے کے دوسرے لوگوں کو ادھر ادھر دیکھا بھی، لیکن وہ ایک لمحہ بھی انتظار میں گنوانا نہیں چاہتے تھے ۔گاؤں کے حاجی شوکت نے حامدمیاں کو اسلام پور میں ہی رکنے کو کہا ۔ اسلام پور مسلمانوں کا بڑا گاؤں تھا ۔ مگر حامد میاں نے منع کردیا اور ایک طرف بھاگنے لگے ۔وہ بہت تیز دوڑ رہے تھے۔ساجد کے ہاتھوں میں کار، گڑیااور دوسرا سامان تھا۔ننھے ساجد کو پتہ نہیں تھا اس نے ڈر کے مارے آنکھیں بند کرلی تھیں ۔میاں حامد پکی سڑک تک آگئے تھے۔ان کے بوڑھے قدموں میں نجانے کہا ں سے طاقت آگئی تھی۔در اصل موت کا ڈر ۔ خود ایک زبر دست طاقت عطا کر تا ہے۔ان کو ڈر تھا کہ اسلام پور کا معاملہ جب دوسرے گاؤں پہنچے گا تو ظلم ہو جائے گا۔وہ اس لمحے کے آنے سے قبل ہی اپنے گاؤں پہنچ جانا چاہتے تھے۔سڑٖک پر پیچھے سے شور کی آواز یں بلند ہورہی تھیں۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا ایک بھیڑ بے تحاشہ بھاگی آرہی تھی۔لوگوں کے ہاتھوں میں تلواریں ، لاٹھیاں اور بلّم تھے۔انہوں نے سڑک سے کھیتوں میں بھاگنا شروع کردیا تھا ۔ اب بس ایک گاؤں پار کرنا رہ گیاتھا ، جس کے پار ان کا گاؤں تھا ۔ دوڑتے دوڑتے وہ تھک گئے تھے ۔ گاؤں کے ایک ویران پڑے ٹیوب ویل کے پاس وہ سانس لینے کو رکے۔انہوں نے راستے سے خود کو چھپا لیا تھا تاکہ کوئی گذر ے تو دیکھ نہ پائے ۔
’’بابا…کیا ہوا ۔آپ کیوں بھاگ رہے ہو ….؟‘‘

’’چپ….پ…‘‘

میاں حامد نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا ۔کہیں کوئی آواز نہ سن لے۔اتنے میں گاؤں میں زبر دست دھماکہ ہوا ۔ لگا جیسے کہیں کوئی بم پھٹا ہو ۔اسلام پور سے اٹھنے والی آندھی سرخ ہوتی جارہی تھی۔موقع ملتے ہی چنگاری ، شعلہ بن رہی تھی۔ آگ گاؤں گاؤں پھیلتی جا رہی تھی۔میاں حامدکے جسم میں خوف کا ناگ بری طرح لہرایا تھا۔انہوں نے ایک بار پھر اپنا راستہ تبدیل کیا ۔ اب وہ گاؤں سے نہ گذر کر کھیتوں کھیتوں اپنے گاؤں کی طرف بڑھ رہے تھے۔دوڑتے دوڑتے وہ اپنے گاؤں کی سرحد میں داخل ہوگئے تھے ۔ ساجد کو نیچے اتار کر انہوں نے ایک لمبی سانس لی۔ان کادل بری طرح دھڑک رہا تھاپرانہیں اطمینان ہوگیا تھا کہ اب وہ اپنے گاؤں میں آگئے ہیں وہ گاؤں جہاں ان کی اوران کے باپ دادا کی عمریں گذری تھیں ۔وہ اطمینان سے ساجد کی انگلی پکڑے گاؤں کی طرف چل پڑے ۔ابھی وہ گاؤں میں داخل ہی ہوئے تھے کہ گاؤں سے ایک شور بلند ہوا۔

’’مارو……پکڑو……‘‘

اس سے قبل کے میاں حامد کچھ سمجھ پاتے ایک جتھا سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ خون کی پیاسی تلواریں ، قتل وغارت کا جنون اوردہشت پیدا کرنے والی آوازیں ۔انہوں نے پلک جھپکتے ہی ساجد کو اپنی گود میں اٹھالیا اور جیسے ہی ایک طرف کو بھاگنا چاہا مکھیا کے بیٹے بیر پال کی دونالی سے نکلنے والی ایک بے رحم گولی نے ساجد کو نشانہ بنا لیا۔
ساجد کے جسم کو پار کرتی ہوئی گولی میاں حامد کے سینے میں پیوست ہوگئی تھی ۔گولی نے اس طرح معصوم ساجد کا جسم پار کر کے میاں حامد کو زمین کا پیوند بنا دیاتھا جیسے حرملہ کا تیر معصوم علی اصغر کے حلق سے ہوتا ہوا امام حسین کے بازو میں ترازو ہوگیا تھا۔ دونوں زمین پر آرہے ۔ خون کا فوارہ دونوں جسموں سے بلند ہورہا تھا۔زمین ساکت تھی ۔ آسمان خاموش تھا ۔ہوا سانس لینا بھول گئی تھی۔دونوں کے خون میں لت پت لاشے پڑے تھے اورتھوڑی ہی دوری پر ساجدکی کار ، نازو کی گڑیا،بہو کا سوٹ ،ایک دھوتی اور ایک چھوٹی سی پیتل کی لٹیاپڑی تھی ، جومیاں حامد بابا سکھ دیو کے گھر والوں کے لیے لائے تھے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں