کیا ہم بطور قوم کسی فیصلے پر آج تک متفق ہوئے ہیں؟ کیا ہم لوگ سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی وابستگیوں سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھا سکے ہیں۔ ہمارے رہنماؤں نام نہاد سیاستدانوں نے ہمیشہ ان عوامل کی بنیاد پر سیاست کی ہے۔ پاکستان دراصل سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی وابستگیوں کا مرکب ہے۔ پاکستان کا مطلب نا معلوم لوگوں نے ” لاالہ الااللہ ” رکھا۔
وہ لوگ دارِفانی سے کوچ کرگئے، ان کی نسلیں اپنی بقاء کی جنگ لڑتے لڑتے ہلکان ہوئیں اور شائدسسک سسک کر دم توڑگئیں۔ اب یہ نعرہ جو کبھی روح کو گرما دیا کرتا تھا ناپید ہوگیا ہے۔ اب یہ نعرہ نصابی کتابوں میں تو ملتا ہے مگر اس نعرے کی روح بھی فنا ہوچکی۔ اگرناپید نہیں بھی ہوا تو اس نعرے سے پیدا ہونے والی حلاوت اب نہیں رہی۔
ہم اس ملک کہ باسی ہیں جہاں مجرم کا پتہ بھی ہو جرم بھی ثابت ہو چکا ہولیکن اگر مجرم کے حوالے بہت سارے ہوں یا چاہنے والے بہت سارے ہوں تو کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ مجرم جو ملزم بن چکا ہے اس کو جیلوں میں بھی محلوں جیسی آسائشیں مہیہ کردی جاتی ہیں۔ یہ یقیناً پاکستانی ہونے کا فائدہ ہے۔
ہم دنیا کو کیا کہہ سکتے ہیں جب اپنے ہی لوگوں میں کھوٹ ہو۔ پاکستان ایک ایسی اسلامی ریاست ہے جہاں حج کو لے کر بھی کرپشن ہوتی ہے جہاں داڑھی اورامامے والے مالی کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اوران کو ان کی کرپشن سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ ہم نے یہ بھی سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ عزت کس بلا کا نام ہے۔ ملک کی سالمیت سے تو ہمارا دوردورتک کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہاں کسی بھی قسم کا نااہل انسان مخصوص وجوہات کی بنا پراہم ترین عہدوں پرفائزہوسکتا ہے۔ یہاں مفاد ہی مذہب ہے اورمفاد ہی ملک و قوم ہے۔
ہمارے ملک کی عظیم ہستی جو دنیا جہان میں اپنی انسانیت کی بدولت بخوبی جانے اور پہچانے جاتے تھےجنہوں نے کبھی بھی اپنی محنت سے حاصل کی ہوئی شہرت کو اپنے لئے سیڑھی نہیں بنایادنیا انہیں عبدالستار ایدھی کے نام سے جانتی ہےجو پاکستان کی سب سے بڑی خیراتی فاؤنڈیشن کہ سربراہ تھے ایک ایسا سربراہ جو اپنے سفر کیلئے بھی اپنی ایک عام سے ایمبیولنس ہی استعمال کرتے تھےجنہوں نے اپنی تمام زندگی اللہ کی مخلوق کی خدمت کیلئے وقف کی۔ ایدھی صاحب کی وفات کہ روز بھی ایدھی ایمبیولنس سروس جوں کی توں پاکستان کی سڑکوں پر رواں دواں تھیں، ان کا کنٹرول روم اسی طرح پیغامات موصول کر رہا تھا اورآگے بڑھا رہا تھا۔ ایدھی صاحب کو پاکستان آرمی نے پورے سرکاری اعزاز کہ ساتھ سپردِ خاک کیاجتنا اچھی طرح ہوسکتا تھا ایدھی صاحب کی آخری رسومات ادا کی گیئں۔
اب ہمارے ملک کہ تمام معززین نے ایدھی صاحب کو لفظوں کی وہ مالائیں پہنائیں جن کی انہیں کبھی بھی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کام سے محبت کرنے والے انسان تھے انہیں بہت جلد دنیامیں اپنے مشن کا علم ہو گیا تھا۔ یقیناً وہ اللہ رب العزت کہ مقرب بندوں میں تھے۔ کیسے بھی حالات رہے ان کی خدمات میں کمی نا آئی، ان کی دیکھا دیکھی بہت سارے لوگوں نے بھی انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھایامگرایدھی صاحب نے کبھی کسی کہ ساتھ کوئی مقابلہ بازی نہیں کی۔
اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ زمین پربیٹھ کر دلوں میں راج کرنے کی ایدھی صاحب نے جو اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے اس پرعمل کرنے کی ضرورت ہے ایدھی صاحب کو واقعی اگر کسی نے خراج عقیدت پیش کرنا ہے تو وہ اپنی زندگی کو ان کی طرز پر گزارنے کا عملی نمونہ پیش کرے۔ یوں تو ہم مسلمانوں کے لئے ہمارے پیارے نبی ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے مگر اس دور میں بھی ایدھی صاحب جیسے دنیا میں جانی پہچانی والی شخصیت ہوتے ہوئے بھی اتنی سادہ زندگی گزار کر ہم سب کے لئے ایک مشعل جلتی چھوڑگئے ہیں۔
آئیں ہم پاکستانی اپنے سیاستدانوں سے ملک کی سالمیت اور ترقی کیلئے ایدھی صاحب جیسی سادہ زندگی گزارنے کی اپیل کرتے ہیں درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان پراورپاکستان کی غریب عوام پر خدارا اب تو رحم کھاؤ۔اب فوج کہ شانہ بشانہ کام کرنے والے ایدھی صاحب نہیں رہے۔ اب ہم زلزلوں ، سیلابوں اور دیگر آفات کہ محتمل نہیں ہوسکتے۔ اس وطن عزیز کی خاطر اپنے اندر تبدیلی لاؤورنہ کچھ بچنے والا نہیں ہمارا دشمن بہت چاروں طرف سے نگاہیں لگائے طاق میں بیٹھا ہے۔
پاکستان کی بقاء اور سالمیت کا تقاضہ ہے کہ عوامی نمائندے عوام میں آجائیں ورنہ جمہوریت کہ نام پر مفادات کا دفاع کرنے والے کسی کو منہ دکھانے کہ قابل نہیں رہیں گے۔
ایدھی صاحب کا آخری جملہ جو ہم سب کے لئے ایک لائحے عمل ہونا چاہئے ’’میرے ملک کہ غریبوں کا خیال رکھنا‘‘۔ ایسا ہی ایک جملہ قائدِ ملت خان لیاقت علی خان شہید کی خاموش ہوتی زبان پر بھی تھا “خدا پاکستان کی حفاظت کرے”، کیا لوگ تھے مرتے دم تک اپنے مشن پر کاربند رہے۔