The news is by your side.

قلم سے قلب تک:ووٹرزاورسپورٹرز

دنیا کے استادوں نے چار بنیادی موسموں کو نصابی تعلیم کا حصہ قرار دیا اور وہ ہی ہم سب نے پڑھا اب ہمارے بچے بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہ کوئی اچھوتی اور انوکھی بات نہیں کے انہی چار موسموں کی عینک ہم نے اپنی آنکھوں کی زینت بنائے رکھی ہے۔ ہمارا پیارا پاکستان دنیا میں اپنی بہت ساری خصوصیات کی بناء پر انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ ان نمایاں خصوصیات میں سے سے ایک موسموں کے حوالے سے ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا موسم بھی ہے جو بارہ مہینے اپنے پورے آب و تاب سے رہتا ہے اور وہ موسم ہے “جلسے جلوسوں کا” ۔ باقی ماندہ دنیا کے لیے یہ ایک نایاب موسم ہے جو صرف کسی ملک کی حکومت اپنے معینہ مدت کی تکمیل کے بعد الیکشن کے انعقاد کے اعلان کے بعد آتا ہے اور بہت مہذب طریقے سے اپنی معینہ مدت کو پورا کرتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں تو چاہے الیکشن سے پہلے کا دور ہو یا الیکشن کے بعد کایہ موسم اپنی تابناکیوں کے ساتھ رواں دواں رہتا ہے۔ کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت اپنی سیاسی، مذہبی، معاشرتی یا معاشتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عوام کی پریشانیوں میں اضافے کا سامان کئے رکھتی ہے۔ ہم پاکستانی انگنت حصوں میں تقسیم ہیں۔ پہلے علاقائی تقسیم، پھر زبان کی تقسیم، پھر مذہب کی تقسیم، پھر مرتبوں کی تقسیم، پھر عمارتوں کی تقسیم، ان تقسیوموں کا کوئی فائدہ اٹھائے جا رہا ہے اور ہم کھڑے اپنا گھر (پاکستان) برباد ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

ہم پاکستانی کسی بھی جماعت کا جلسہ ناکام نہیں ہونے دیتے۔ ان جلسوں کی کامیابی کی بہت ساری باضابطہ وجوہات ہیں۔ کہیں مخصوص رقم کا لالچ رکھا جاتا ہے، کہیں لوگ سلیبریٹی کو دیکھنے کے شوق میں آتے ہیں، کہیں لوگ صرف شغل اور ہوا خوری کے لیے آتے ہیں، کہیں لوگ خوف کی وجہ سے آتے ہیں اور ان سب میں ایک بات تو ایک سی ہے اور وہ ہے بیروزگار لوگوں کی بھرمار جو اس نیت سے ان جلسہ گاہوں کا رخ کرتے ہیں کے کھانے پینے کا اور پیٹ بھرنے کا سامان تو ہو ہی جاتا ہے۔اس پیٹ کے چکر میں بطور سپورٹر جلسے کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈال دیا جاتا ہے۔

سیاسی جلسے جلوس عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے منعقد کئے جاتے ہیں، لوگوں کا ذہن بنانے کے لیے کئے جاتے ہیں یا پھر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کئے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کے کون سا جلسہ کس کام کے لیے کیا جا رہاہے۔ یہاں تو جلسے صرف اور صرف ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے لیے کئے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف دشمن بنائے جاتے ہیں اور پھر ان پیدا کردہ دشمنوں کو اجتماعی دشمن استعمال کرتے ہیں۔ جلسے میں آنے والے اس حس سے عاری ہوتے ہیں کے کون کیا کہ رہا ہے، کس کا جلسہ ہے۔ یہ تو بس اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی غرض سے ایسے اجتماعات ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

سپورٹرز وہ ہوتے ہیں جو جلسوں کو کامیاب دکھانے میں کارگر یا کار آمد سمجھے جاتے ہیں۔ سپورٹرز کی تعداد میں سماجی میڈیا اور اس پر چلنے والی ’سیلفی‘ نے بہت حد تک اضافہ کیا ہے۔ اس کے برعکس ووٹرز وہ ہوتے ہیں جو حکومت سازی، آئین سازی اور ملک میں نظامِ جمہوریت کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے  ہیں اور عوامی نمائندوں کو عوام کے مسائل کے حل کے لیے اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ووٹرز کی تقسیم برادری نظام کے تحت کی جاتی ہے یا پھر لسانیت پر اور یا پھر مذہبی فرقہ واریت پر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جلسہ آپ نے کسی کا بھی مذکورہ بالا وجہ سے سپورٹ کیا لیکن ووٹ آپ اپنی برادری والے کو دیں گے یا پھر اپنے ہم زبان کو یا کوئی بھی ان سے ملتی جلتی وجہ سے آپ اپنا ووٹ دیں گے۔

ہم تقسیم شدہ لوگ یہاں بھی تقسیم ہیں سپورٹرز سپورٹ کی حد تک جہاں تک جاسکتا ہے جاتا ہے۔ تبدیلی، انقلاب، استحکام اور پھر دوام پاکستان میں اسوقت آئیگا جب پاکستانی ووٹر اور سپورٹر ایک ہوجائے گا۔ پھر یہ ملک تعلیم یافتہ بھی ہوجائیگا اور ترقی یافتہ بھی۔ (انشاء اللہ)

شاید آپ یہ بھی پسند کریں