The news is by your side.

تھکان سے بھرپوربے مقصد سفر

دنیاکہ ہر ملک میں اچھائی اور برائی موجود ہے پیمانے مختلف ہیں،برائی کی شکلیں مختلف  ہیں مگر اچھائی کی شکل تمام مذاہب میں ایک سی ہی ہوتی ہےدنیا کی آبادی چھ ارب انسانوں سے تجاوز کر رہی ہے۔قدرت نے شکلیں ہی نہیں سوچ اور سوچنے اور برتنے کہ انداز بھی ایک دوسرے سے مختلف بنائے ہیں۔ہم تو اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ قدرت کہ کارخانے میں ابھی اور کیا کچھ نیا باقی ہے۔ایک دوسرے سے بھلائی کرنا ایک دوسرے کے کام آنابلا اشتراکِ تعلق دنیا کہ ہردین و مذہب کا خاصہ ہے۔ ان مقصد کو لیے دنیا جہاں میں لوگ اپنے اپنے طور پر کام کررہے ہیں۔غیر سرکاری تنظیمیں  اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔۔اچھائی کرنا اور اس کی تشہیر کرنا آج سوشل میڈیا کہ اس دور میں فیشن کی ایک شاخ بھی بنتا جا رہاہے (ان تمام اداروں اور ان سے وابستہ لوگوں سے بہت معذرت کےساتھ جو حقیقی معنوں میں خدمتِ خلق کے  حقیقی جذبے سے سرشار اس کارِ خیر میں مصروف ہیں)۔ دنیا میں وہ تمام لوگ جو ایک مخصوص مقصد(انسانیت کی بھلائی) کیلئے کام کررہے ہیں ایک جگہ جمع کیوں نہیں ہوجاتے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھے بہت تنگ کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے ۔اگرقوم اور مذہب سے بالاتر ہوکر مقصد خدمت کرنا ہے تو یکجا ہوکر کیوں نہیں کیا جاتا۔سوچئے اگر عبدالستار ایدھی اور بل گیٹس اور ان کی طرح کہ لاتعداد لوگ ایک ہو کر کام کرنے لگیں تو دنیا کا نقشہ ہی بدل جائے۔جب سیاسی مقاصد کیلئے سیاستدان دنیا جہان سے ایک ہوسکتے ہیں تو یہ خدائی فوجدار کیوں نہیں ایک ہوسکتے۔ لیکن  یہ سیاسی مقاصد والے ہی ایسا نہیں ہونے دیتے کم سے کم ہمارے ملک پاکستان میں تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔

باتیں بنانا بہت آسان سمجھا جاتا ہے‘ جی ہاں بہت آسان ہےمگر ہم ترقی کی اس منزل پر پہنچے ہوئے ہیں جہاں باتیں ریکارڈ کرنا اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔صرف باتیں ہی نہیں بولنے والا اپنے الفاظ کہ ساتھ بھی ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔جولوگ بولنے سے پہلے تولتے ہیں اور تول رہے ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔فرق صرف انہیں پڑتا ہے جو بول کر سوچتے ہیں کہ کیا بول دیا(اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے)۔ درپیش صورتحال یہ ہے کہ ہم پاکستانی (جولاتعداد درجوں میں بٹے ہوئے ہیں، نسلوں میں، فرقوں میں ، زبانوں میں، علاقوں میں وغیرہ وغیرہ)وقتی طور پر بھول جاتے ہیں کس نے کیا بولا۔اس لئے بولنے والا بھی بلا خوف و خطر جیسی چاہے زبان استعمال کرے اور اس زبان سے جس کی چاہے ہتک کرے عوام کا کام عوامی طرزِ عمل ہے یعنی نعرے لگانا، تالیاں بجانا۔کوئی اس عوام سے یہ تو پوچھے کہ تالی کیوں بجا رہے ہو تو جواب ملے گاہمارے لیڈر نے کتنی اچھی بات کی ہے۔

پاکستانی قوم لیڈر اور لیڈری کہ معنی سے ماوراہےجو زیادہ شور مچانے اور تہذیب آمیز گفتگو کرنے پر عبور رکھتا ہے ۔ جو کیچڑ اچھالنے کہ فن میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا وہ سب سے اچھا اور ذہین لیڈر ہے ۔جس قوم کو لیڈر کا نہیں پتہ اسے ترقی سے کیا لینا دینا ‘اسے پاکستانیت سے کیا لینا دینا ۔کسی نے خوب کہا تھا کہ ہم ایک ریوڑ کی مانند ہیں جسے کوئی چرواہا جب تک ڈنڈے سے ڈرا دھمکا کہ سیدھا رکھتا ہے ریوڑ صحیح سمت میں سفر کرتا جاتا ہے۔ جب چرواہا ڈنڈا رکھ چھوڑتا ہے یا بغیر ڈنڈے والا چرواہا آجاتا ہے تو ریوڑ مختلف سمتوں کی جانب پیش قدمی شروع کردیتا ہے۔پھر چرواہے کیلئے سوائے آرام کرنے کہ اور کچھ نہیں رہ جاتا۔

انگنت مذہبی جماعتیں جو یقیناً ہمارے مذہبی رجحان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وجود میں آتی جارہی ہیں‘ ہم  بحیثیت فردِ واحد قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے سے مبرا ہیں۔ہم نے دین ٹھیکے پر دے رکھا ہے ۔بچے کو قاری صاحب پڑھائیں گے،  ان سے ہی یہ توقع کی جاتی ہے کہ دین کہ بنیادی عقائد اور تربیت وہ ہی فراہم کریں گے۔وہی اخلاقیات کا درس ادا کر وائیں گے۔اگر انہوں نے ہمارے بچوں کو دین میں موجود دنیا تک رسائی دے دی تو ان کا کاروبار کیسے چلے گا۔ثواب کہ غرض سے مدرسے کہ بچے قران خوانی کےلیے اپنی خدمات فراہم کریں گے اور ہم ثواب کی غرض سے ان کو کھانا کھلائیں گےیعنی دین کا ٹھیکہ مولوی کو دے دیا ہے اور دنیا کا ٹھیکہ سیاست دانوں کو مزے کی بات یہ ہے کہ مولوی اور سیاست دان کبھی ایک بات پر متفق نہیں ہوتے ۔ عوام کو بھٹکائے رکھنے کی ملی بھگت والا معاملہ بھی ہو سکتاہے۔سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ مولوی صرف دین جانتا ہے اور مولوی کہیں کہ سیاست دان صرف دنیا پرستی سے واقف ہیں۔

ان سارے معاملات میں مقصد کہاں ہے اور اگر ہے تو کیا ہے ۔کون کس مقصد کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کررہا ہے یہ جاننا بہت مشکل کام ہے ۔ہم جس معاشرے میں اپنی اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں یہاں جب کسی کواونچائی کی طرف لے کر جاتے ہیں تو آسمان کی وسعتیں کم پڑ جاتی ہیں ۔ اسے سر آنکھوں پر بٹھائے آ جاتا ہے ۔اس کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کردیئے جاتے ہیں اور جب کسی کو نیچا دکھانے پر آجائیں تو اسکے لئے زمین کی گہرائی کم پڑجاتی ہے اور اس کے اچھے کاموں میں بھی کیڑے نکال کر سامنے رکھ دیئے جاتے ہیں۔ہم لوگ بغیر کسی سمت کے سفر میں مصروف ہیں اور بہت تیزی سے چل رہے ہیں۔

بغیر منزل کہ سفر سے صرف تھکان ملتی ہے اور ایک دن یہ تھکان ہمیں پیوندِ خاک بنا دیتی ہےمگر منزل کا کہیں دور دور تک اتا پتہ نہیں ہوتا ۔ہمیں جب یہ احساس ہوتا ہے کہ سفر کرنے کی سمت ہی غلط تھی  تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور واپسی کا وقت ہو چکا ہوتا ہے۔ہم اس وقت بھی اپنی نسل کو اپنی اولاد کو یہ بات سمجھانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اپنے سفر کا پتہ کرو اپنی منزل کا تعین کرو‘ورنہ بھٹکتے ہی رہو گے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں ایک ایسی نام نہاد منزل بنا کر منزل کہ ملنے کا ایسا جشن کریں کہ ہمیں شرمندگی سے سر چھپانے کیلئے کہیں جگہ نہ ملے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں