نیا میں ہر طرف رنگ و نور کی بہتات ہے اور آج اسی کی اہمیت بھی بہت زیادہ ہے ۔ موسیقی کی اہمیت ہے اور ہر اس چیز کی اہمیت ہے جو اپنے ہونے کا بے ہنگم احساس دلانا جانتی ہو۔ کیا اسکی وجہ لوگوں کی حقیقت پسندی کا سامنا کرنے سے معذوری ہے۔ دنیا کی مشقت بہت تھکا دینے والی ہے ہلکان کردینے والی ہے۔ اپنی توانیاں کسی ایک جانب مبذول کرنا بہت مشکل کام ہوتا جا رہا ہے۔ آج کامیابی کا سہرا اسی کے سر سجتا ہے جو بیک وقت مختلف امور پر عبور رکھتا ہو۔
کشمیرتاریخ کی وہ حقیقت ہے جو خون میں لتھڑے ہوئے ہونے کے باوجود دنیا پر اپنی سچائی ثابت کرنے سے قاصر ہے۔ کشمیر کی آزادی کیلئے قربانیوں کی ایک طویل فہرست ہے جو عمر کی حد سے آزاد ہے اور جس میں صنف کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ قربانیاں ہی قربانیاں ہیں صعوبتیں ہی صعوبتیں ہیں۔ چیخ و پکار ہے ہر طرف ظلم بے شمار ہے۔ بھارتی افواج کشمیر میں ظلم اور بربریت کی تاریخ رقم کر چکے ہیں، یہ انسانیت کے روپ میں درندے ہیں۔ بھارت ابتک سات لاکھ تربیت یافتہ بھارتی فوج کشمیر میں اتار چکا ہے اور پھر بھی کشمیر کو اپنے قابو میں کرنے سے قاصر ہے۔ کشمیر، بھارت کیلئے شائد خطے میں اپنے اثرورسوخ کی لڑائی ہو مگر کشمیریوں کیلئے یہ نظریاتی جنگ ہے۔ کشمیری دوقومی نظرئیے کی بنیاد پر برسرِپیکار ہیں۔
جدوجہد کی ایسی بہت سی مثالیں تاریخ کی ورق گردانی کرنے پر مل جائیں گی، لیکن تاریخ میں جب دنیا میں روشنی کی سورج کے بعد نا ہونے کے برابر ہوا کرتی تھی۔ جب کوئی ایک چیخ پورے قبیلے کو سہمادینے کیلئے کافی تھی۔ جب کسی کی کوئی سنوائی ہونا یا اس امر کیلئے کھڑے ہونا ناممکنات میں سے تھا۔ ڈنڈوں سے لڑنا پڑتا تھا حقوق کیا ہوتے ہیں کسی کو کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ جیسے ملا کھایا، طاقتور نے چھین لیا چھین لیا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ تاریخ میں تاریکی بہت تھی اسلئے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ہم بہت دور نہیں جاتےبلکہ ’تحریکِ پاکستان‘ تک چل کے آتے ہیں۔ چل کے جانے میں قدم قدم پر لاشیں ہمارے قدموں سے ٹکرائیں گی، کہیں جسم کے کٹے پھٹے عضاء بھی مل جائیں گے، کہیں عزتیں بچانے کیلئے کنووں میں کودنے والیوں کی چیخوں کی آواز بھی سماعتوں کو بہت تکلیف دہ گزرے گی، کہیں معصوم جسموں سے خاک ہونے کی باس بھی آئے گی۔ مگر تاریخ کے اس دور میں حقائق کی ترجمانی کرنے کیلئے کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ اپنی نوحہ خوانی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ تاریخ کی چیخیں بھی سسکیوں کی مانند تھیں۔ جو زور آور دشمن تھا اس نے بے رحمی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں مگر خوش قسمتی سے وہ لمحے لفظوں میں محفوظ رہے اوروہ تمام سسکیاں بس تاریخ کا حصہ بن گئی۔
آج ہم سن 2016 میں سانس لے رہے ہیں جب زمانہ ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ معلومات کا طوفان ہے انگنت ذرائع ادھر کی خبر ادھر اور ادھر کی خبر ادھر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ زبانوں کی قید سے آزاد ہے، سب کو سب کچھ تصویروں سے سمجھ آجاتا ہے۔ کشمیر کا بچہ بچہ آج بھی کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ظلم آج بھی تحریکِ پاکستان جیسا ہی ہو رہا ہے مگر آج دنیا کے کونے کونے میں یہ ظلم اور یہ بربریت اور انصاف کی دھجیاں آڑائی جانے کی مثالیں براہِ راست دیکھی جارہی ہیں دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج بھی ہو رہا ہے۔ دنیا میں امن قائم کروانے والے ادارے اور باہمی رابطے کے ادارے کشمیر پر کیوں چشم پوشی کر رہے ہیں کیوں اپنے اختیارات مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کیلئے استعمال کر رہے، آخر کب تک دنیا اور دنیا کے منصفین خون میں غلطاں ’سچ‘ کشمیر جھٹلاتے رہیں گے اور کشمیری اپنی نسلوں کی قبریں بناتے رہیں گے۔