The news is by your side.

ہماری سیاست اور الزامات کا پنڈورا بکس

تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کا ایک ہی فرد پاکستان کی پوری سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھاری پڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے چئیرمین اور المعروف ’کپتان‘ عمران خان، وہ اکیلی شخصیت ہیں جو پاکستان کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں سے نمٹنے کاہنر جانتے ہیں۔ خان صاحب سب کے سوالوں کے جواب بھی بے دریغ دے دیتے ہیں اور اپنی نجی زندگی کے معاملات بھی نمٹاتے نظر آتے ہیں جن میں دوستوں سے میل ملاپ سے لے کر جسمانی کسرت بھی شامل ہے۔ خان صاحب کو اللہ تعالی نے پاکستان کو بطور تحفہ بھیجا ہے جیسے خود پاکستان اللہ کی طرف سے پاکستانیوں کیلئے ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ جس کی ناقدری کی سزا 71میں سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں بھگت کر بیٹھے ہیں مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے پھر بھی اپنے آپ میں تبدیلی نہیں لائے اور اسے ڈگر پر چلے جا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اپنی باری کی یقین دہانی کے باعث خاموش بیٹھے رہتے ہیں چاہے وہ اپوزیشن میں ہی کیوں نا ہوں اور کچھ لوگ ہر دور میں حکومتی سیٹوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں سے تو کسی قسم کی مزاحمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انڈیا کے ساتھ حالات مسلسل کشیدہ ہیں مگر اللہ کے فضل و کرم سے ہماری افواج کی ایسی ہیبت ہے کہ سوائے زبانی جنگ کے انڈیا اور کچھ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ان کے ذہنوں کی طرح ان کا اسلحہ بھی ہمارے فوجیوں سے خوفزدہ دیکھائی دیتا ہے ۔ یوں انڈیا کے ساتھ کشیدگی ہمارے سیاستدانوں کا مسئلہ نہیں ہے ان کا مسئلہ اس ملک پر حکومت کرنا ہے کیونکہ حکومت میں ہوتے ہیں تو پھر کچھ بھی کرتے پھرو کسی کو جوابدہی نہیں ہوتی۔ حکومت وفاق میں ہو تو کیا ہی بات ہے ورنہ صوبائی حکومت تو مل ہی جاتی ہے جیسے پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف اور بلوچستان کی صوبائی حکومت تو نام کی ہی ہوتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کو ہٹا دیجئے مقابلہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں ہے۔ ان دونوں صوبوں میں ایک دوسرے کی ٹسل میں کام ہو رہا ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اس کا بنیادی فائدہ عوام کو پہنچ رہا ہے۔ رہی بات سندھ کی تو یہاں تو کچرے سے ہی جان نہیں چھوٹ رہی اس سے آگے کیا بات کریں۔

ملکی سیاست سے ذرا سا دھیان ہٹا کر اور سرحدی صورتحال سے نظریں چرا کر توجہ طلب بحث کراچی میں چل رہی ہے اور الزامات کا ایسا پنڈورا بکس کھولا ہوا ہے جس سے تمام پاکستانی محضوض ہو رہے ہوں گے۔ یہ باکس کراچی کی اس سیاسی جماعت کے ذمہ داران نے کھولا ہوا ہے جو اب مختلف طرزِ سیاست کی تبلیغ کرنے کیلئے کراچی میں براجمان ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ آپ خبروں میں نمایاں رہنے کیلئے یا اخبارات میں سرخیوں میں چھپنے کیلئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کے کیا بول رہے ہیں اور کس کے کیخلاف بول رہے ہیں، بس بولتے چلے جائیں۔ گورنر صاحب اور مصطفی کمال صاحب جو شائد ایک عرصے سے ایک دوسرے سے رابطے میں نہیں، پھر اچانک اس سارے ڈرامے کی کیا ضرورت تھی۔ اس سارے ماحول میں کراچی کی عوام کیلئے یقیناً مشکل حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں یا کئے جارہے ہیں۔ ابھی کراچی کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ سیاسی بحران سے گزر رہی ہے تو دوسری مہاجر قومی موومنٹ بھی فعل ہوتی دیکھائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف پاک سرزمین پارٹی جو ابھی پریس کانفرنس کے ذریعے سے اپنے ہونے کا عندیہ دے رہی ہے، عملی سیاست کیلئے 2018 کے انتخابات کے اعلان کی منتظر ہوگی۔

ہمارے ملک کی سیاست کیا ملک بھی الزامات کی بنیاد پر ہی چلتا ہے، ایک سیاسی جماعت دوسری، تیسری سیاسی جماعتوں پر الزامات لگاتی ہے اس کے جواب میں اگلی جماعت پہلی والی جماعت پر الزامات کی طویل فہرست پیش کردیتی ہے پھر کوئی اور ان دونوں پر الزامات کا ٹرک الٹ دیتا ہے۔ کوئی بھی ہماری گلیوں سے کچرا اٹھوانے نہیں آتا، کوئی بھی ہسپتالوں میں مرتے مریضوں کی خبر گیری نہیں کرتا اور کوئی بھی کھانے کی اشیاء میں زہر ملانے والوں کو نہیں پکڑتا۔

اس بات سے تقریباً ہر پاکستانی اتفاق کرے گا (سیاسی وابستگیوں کے علاوہ) کہ پاکستان میں اگر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آ رہی ہے تو اس کا سہرا عمران خان کے سر ہے چاہے وہ کراچی کے موجودہ حالات ہوں یا پھر لاہور کے یا پھر کوئٹہ اور پشاور کے۔ لوگوں میں ایک بےخوفی پیدا ہوئی ہے ۔ حالات سے لڑنے کا جذبہ پیدا ہوا ہے ۔ اپنے وجود کا احساس ہوا ہے۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی صلاحیت اجاگر ہوئی ہے۔

موجودہ دور الزامات اور الزام تراشی کا دور ہے ۔ یہ آپس کہ الزامات درحقیقت وقت گزارنے کے بہانے ہیں۔ خان صاحب یہ تمام پاکستانی سیاست دان جمہوریت کہ لبادے میں لپٹی کرپشن کو بچانے کیلئے آپ کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں اور یہ سب اس آلودہ نظام کے کرتا دھرتا ہیں آپ چاہے رائے ونڈ میں جلسہ کریں یا پھر اسلام آباد میں پھر دھرنا دیں۔ یہ اپنا وقت پورا کرکے ہی جائیں گے اور پھر باری کے انتظار میں کھڑے اگلی حکومت کی تیاری کریں گے۔

یہاں الزامات کی سیاست ہوتی ہے، یہاں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے، یہاں زبانوں پر سیاست ہوتی ہے، یہاں کرپشن پر سیاست ہوتی ہے۔ انصاف مانگنے والے کو یہ لوگ پاگل کہہ کر سنگسار کروادیتے ہیں۔ لیکن آپ پرواہ نہ کریں کہ  ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ حق رہنے کیلئے ہے اور باطل مٹنے کیلئے ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں