The news is by your side.

کیا خودی تھی ’اقبال‘ کی

جہاں لوگوں کا استحصال کیا جائے، جہاں لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جائے بے جا قبضہ کیا جائے، جب قانون اور قانون نافذ کرنے والے خواص کی حفاظت اور مظلوم کو سزاء دلوانے کیلئے اپنے فرائض انجام دینے لگیں، جب ادارے افراد کی قدر نا کریں اور افراد اداروں کی قدر چھوڑ دیں، اسطرح کی اور بہت ساری وجوہات یا صورتحال نمایاں ہونے لگیں تو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے، توازن کے بغیر کوئی بھی شے گر جاتی ہے اور آہستہ آہستہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی حال معاشروں کا ہوتا ہے اور بلاآخر ملکوں کا استحکام ٹوٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف دشمن موقع غنیمت جان کر قبضے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کیلئے یا تنگ آکر کچھ لوگ ایسے حالات پیدا کرنے والوں سے لڑنے کا تہیہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو انقلابی کہا جاتا ہے یہی وہ لوگ ہوتےہیں جو انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ لوگوں کو قائل کرنے کیلئے کوششیں شروع کر تے ہیں اور جیسے جیسے ممکن ہو یہ لوگوں کو پہلے ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں اور پھر جسمانی طور پر قربانی کیلئے تیار کرتے ہیں۔

یہ انقلابی تحریکیں بہت خاموشی سے کام  کرتی تھیں بالکل ایسے جیسے میدان میں لگی ہوئی گھاس میں آپ پانی چھوڑ دیں اور اس وقت تک گھاس میں موجود پانی کی موجودگی کا احساس نا ہوسکے جب تک پانی سطح پر واضح طور پر نظر آنا شروع نا ہوجائے۔

تحریکوں کی یا انقلاب کی نوبت کیوں آتی ہے؟ یقیناً جب معاشرے میں رہنے والے افراد کسی خصوصی سازش کے تحت دیوار سے لگائے جانے لگیں۔ راتوں رات نہیں آتے ان کیلئے قربانیاں دینے والوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تیاری محض تیاری نہیں ہوتی انقلاب کے روحِ روں اپنی زندگیاں اپنی قیمتی جانیں اپنی ہتھیلیوں پر لئے گھومتے ہیں اور کم و بیش تمام عمر چھپتے چھپاتے بھاگتے دوڑتے گزرتی ہے۔  لوگوں کو ایک مخصوص مقصد کی جانب متوجہ کروایا جاتا ہے ۔ یہ لوگ گھر گھر جا کر لوگوں میں لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے آگاہ کرتے ہیں، ان لوگوں پرحکمرانوں کی نااہلی واضح کی جاتی ہے۔ ایسی تحریکوں میں شمولیت کرنے والوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ جان دے دینی ہے مگر راز یا تحریک کے حوالے سے کسی قسم کی آگاہی نہیں دینی۔

شاعرِمشرق علامہ اقبال کے حالاتِ زندگی پراک نظر

 تحریک پاکستان بھی ایک انقلاب کی جانب پیش قدمی تھی۔ یہ کیسا انقلاب تھا یہ کیسی تحریک تھی جس کی گواہی برِ صغیر میں بسنے والا ہر فرد دے گا۔ اس تحریک کی روح “دو قومی نظریہ” تھا تو جسم ایک الگ مسلم ریاست کا “خواب” تھا جو شاعرِ مشرق حکیم الامت محترم جناب داکٹر علامہ محمد اقبال نے اپنی جہاں دیدہ آنکھوں سے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک سادہ لوح انسان تھے مگر انہوں نے برِ صغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔آپ نے اس انقلاب کیلئے اپنے قلم کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ آپکے قلم سے “خودی” پروان چرھی اور “شاہین” کی اڑان کا علم سے آگاہی میسر آئی۔ آپ کی شاعری نے گھر بیٹھے مسلمانوں میں فکر کو جنم دیا اور پھر اس فکر کو شاہین کے پر لگے۔ آپ کا فکر اور فلسفہ جہاں مسلمانوں میں  بیداری پیدا کرنے کیلئے تھا تو دوسری طرف دیگر مذاہب کے لوگ بھی جو علم کی روشنی سے فیضیاب ہونا چاہتے تھے، فیضیاب ہوئے اور پاکستان کیلئے علامہ اقبال کی خصوصی خدمات کو سراہا۔ حقیقی معنوں میں آپ کے خواب نے بھٹکے ہوئے قافلے کی منزل کا تعین کیا۔ جدوجہد جو انقلاب کو تحریک کو دوام آپ کے خواب کی بدولت میسر آیا۔ آپ 1947 سے قبل ہی دارِفانی سے کوچ کرگئے مگر ہم سب اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ علامہ اقبال اپنی بصیرت کی بدولت دنیا کے نقشے پر ابھرنے والے پاکستان کو دیکھ چکے تھے۔

آپ کی سیاسی بصیرت کی بدولت مسلمانوں کو محمد علی جناح جیسے رہنماء میسر ہوئے۔ علامہ اقبال مسلمانوں کو یا ہر مسلمان کو خودی کے فلسفے سے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ آپ نے خصوصی طور پر ہمارے لئے اور عمومی طور پر دنیا کیلئے اپنی شاعری میں خودی کی اہمیت کو اجاگر کیا اور تا دم مرگ اس کوشش میں سرگرداں رہے کہ ہم لوگ خودی کو سمجھ لیں۔ اقبال کی خودی کی معراج ایک بہت مشہور شعر سے واضح ہوتی ہے ؛

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

شائد خدا نے علامہ اقبال سے بھی انکی واپسی کا خود پوچھا ہوگا۔ اقبال کی خودی نصاب تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور نئی نسل کیلئے تو نصاب میں بھی بس ایسے ہی ہے۔ اقبال کے یہاں دوسری اہم ترین شے شاہین ہے۔

پاکستانی قوم کی بدقسمتی پر سینہ کوبی کیجئے سر دھنیئے، آج ہمارے درمیان اقبال اکیڈمی ہے اور بہت کچھ علامہ کے نام سے موسوم ہے سوائے ہماری سیاسی اقدار کے۔ دنیا جہان میں اپنے مفکرین کی نقشِ قدم پر چل کر کامیابی اور کامرانی، ترقی حاصل کی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں کسی سیاست دان کی شخصیت صاف ستھری نہیں ہے۔ کسی میں خودی کا عنصر نہیں ہے اور نا ہی کسی میں شاہین سی اڑان ہے۔ خودی “انا اور ضد” کی صورت میں موجود ہے اور شاہین “بدعنوانی” کی شکل میں موجودہے۔ آج ہمارے ملک میں انا اور ضد کی بدولت بدعنوانی پر بدعنوانی شاہین کی طرح آسمان کو چھورہی ہے۔ کیا اقبال ایسی کی قوم کو خودی کا درس دے گئے تھے۔

اب معاشرے کی ایسی نشونما کی گئی ہے کہ اقبال پر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لینے کے باوجود کوئی دوسرا اقبال نہیں پیدا ہوگا اور جب اقبال پیدا نہیں ہوگا تو محمد علی جناح کو کون تلاش کرے گا۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں