محبت ازل کی شاخ سے ٹو ٹا ہوا وہ پھل ہے کہ جس کا بیج بنجر زمین میں پھوٹ کر صحرا کو گل و گلزار کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ وہ نا دیدہ تعلق ہے جو زمان و مکاں کی حدوں سےماورا ہے ، سالہا سال کی گرد اور سات سمندر پار کی مسافت بھی دو دلوں کے درمیان تعلق کو گہنا نہیں پاتی انسان ہی سے کیا خدا نے ہرجاندار نفس کے خمیر میں محبت کی نمو ڈالی ہے۔ کیونکہ اللہ خود محبت کرتا ہے اوران لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو اپنے حسنِ عمل سے ٹوٹے دلوں کو جوڑنے اور معاشرے میں ایثارووفا کے قیام کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
محبت ایک ایسا عالمگیرجذبہ ہے جس پرانسانی معاشرے کی اساس ہے ۔ مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھا جا ئے تو اسلام ہو یا عیسا ئیت ، بدھ مت کے پیروکار ہو ں یا ، یہودی ہر مذہب محبت ، امن اورمساوات کا داعی ہے۔یہ صرف ہم انسانوں کے بنائے ہوئے خود ساختہ معیار ہیں جو شودر کو برہمن اور اعلیٰ کو ادنی کےساتھ بیٹھنے پر مانع ہیں ورنہ ہر مذہب کی اساس صرف اور صرف محبت رہی ہے ۔سائنسی نقطۂ نظر سے بھی کائنات میں ہر شے اپنے اپنے اصول پر کاربند ایک دوسرے کی ممدو معاون ہے ، اجرام ِ فلکی سے لیکر وائرس تک ہر نفس کا اپنا ایک نظامِ زندگی ہے۔
انسانی معاشرتی زندگی کی اساس بھی یہی باہمی محبت ، ایثار ،صلح رحمی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہے ، سو وہ عالمگیر جذبہ جس کی بنیاد پر ہماری زندگیوں کی عمارت بلند ہوئی ہےاسےدنوں اور لوگوں سے منسوب کر کے باقاعدہ تہوار یا رسم کی طرح منانا حماقت نہیں تو اور کیا ہے ، جدت ترقی اورماڈرنزم کے راستے پرچل کر انسان مذہب سے دور تو ہوا ہی تھا اپنی کلچرل اساس بھی کھوتا جا رہا ہے۔ مغرب میں لوگوں کو ماں باپ فادر ، مدرز ڈے پر اور بیوی یا محبوبہ” ویلنٹائن ڈےپر ہی یاد آتی ہے اور اب کچھ ایسا ہی چلن پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے ۔ ٹی وی چینلز سےلےکر کالج ، یونیورسٹیز حتیٰ کے ایلیٹ کلاس کی فیملیز میں بھی” ویلنٹائن ڈے” کئی برسوں سے ایک تہوار کی طرح منایا جا رہا ہے۔
کہیں کارڈز اور بیلونز کا انتظام کیا جارہا ہوتا ہے تو کہیں شادی کی طرح لال رنگ کے خصوصی لباس تیار کروائے جا رہے ہوتے ہیں، مارننگ شو میں سیلیبریٹیز اور محبت کے علم بردار مشہورو معروف جوڑے اپنی داستانِ محبت کاچند روپوں کے عوض سوداکرکے دنیا کو اصل میں ” محبت برائے فروخت ” کا میسج دے رہے ہوتے ہیں ۔کیا سچی محبت اتنی ارزاں ہوتی ہے کہ کروڑوں ناظرین کے سامنےبیٹھ کر اپنےدن رات نیلام کیے جائیں ؟؟۔
مغرب کی دیکھا دیکھی ہم جس روش پر چل پڑے ہیں اس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے کیونکہ مغرب نے تو صرف روش تبدیل کی ہے ہم اندھی تقلید کے نام پر سراب کے پیچھے بھا گ رہے ہیں ۔ جو قومیں اپنی کلچرل اساس کھو بیٹھتی ہیں تاریخ انھیں بہت جلد فراموش کر دیتی ہے ۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کہ کیا ہم صرف ایک دن کی موج و مستی چاہتےہیں یا پھر اپنے کلچر، اخلاقیات اور معاشرتی حدود و قیود کی محافظ ایک قابل ِ فخر قوم بننے کو ترجیح دیتے ہیں ؟؟۔