کسی بھی تاریخی اہمیت کی حامل شے کو تلاش کرنے کیلئے اس دور کی کتابوں سے رجوع کیا جاتا ہے کیوں کہ اس وقت ان کتابوں کے منصفین کا ہونا تو ناممکن سی بات ہوتی ہے، مگر کتابوں میں جھانکے گا کون اور ان میں سے نکالے گا کون؟ پڑھنے والے نصاب کی سیکڑوں کتابیں پڑھ پڑھ کے اتنے اوب جاتے ہیں کہ فارغ وقت میں کم از کم کتاب کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسے میں حوالے کی تلاش کیلئے انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت ہی جانا پہچانا جانے والا نام “گوگل” اور دوسری تلاش کرنے والی ’’ویب سائٹس‘‘ کا ہے۔ ان کی بدولت انسان کی کتاب سے دوستی اور تعلق ٹوٹنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ بلکل ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ گوگل اور دیگر تلاش کرنے والی سائٹس نے ہماری زندگیاں بہت آسان کردی ہیں۔
یہ بھی تکنیک کی ترقی کی ایک مثال ہے۔ آج انسان ترقی کی حدوں کو چھونے جا رہا ہے کائنات کے نئے راز افشاں ہو رہے ہیں۔لگ یوں رہا ہے کہ دنیا اپنی تکمیل سے پیشتر ہی خاتمے کی جانب پیش قدمی کرنے لگی ہے۔ طرح طرح کہ مہلک ہتھیار بن چکے ہیں جو انسانوں نے انسانوں کو ہی نقصان پہنچانے کیلئے بنا رکھے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ زندہ وہ بھی نہیں بچا جس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مارے تھے اور نہ وہ زندہ ہیں جنہوں نے اس کام کا حکم دیا تھا۔ موت تو سب کو ہی آجانی ہے تو پھر بم اور دھماکہ کس لئے کس بات کی جلدی لگا کر بیٹھے ہیں۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ ترقی نے تہذیب کے پرخچے اڑادئیے ہیں یا پھر ترقی تہذیب کو کھا کھا کر پروان چڑھی ہے۔ آپ اپنا موازنہ کرکے دیکھ لیجئے، کیا آپ اپنے بڑوں کے سامنے ایسے ہی برتاؤ کیا کرتے تھے جیسے آج ہمارے سامنے ہمارے چھوٹے یا ہمارے بچے کر رہے ہیں۔ ہم آپسی (بہن بھائی) گفتگو کے لیے بھی ایسی جگہ کا انتخاب کرتے تھے جہاں بڑوں کی گفتگو میں خلل نہ پڑے یا ان کا دھیان نا بٹے۔ جی ہاں یہ کوئی انیس سو ڈیڑھ کی بات نہیں ہے بس یہ موبائل اور انٹرنیٹ کے آنے سے پہلے تک کا تذکرہ ہے۔
آج ہمارا معاشرہ بے ہنگم ہوا جا رہا ہے، ہم نے بے پردگی، بے حیائی، بد زبانی اور بے لگامی کو ترقی کرنے کے بنیادی اجزائے ترکیبی سمجھ لیا ہے اور ہم اپنی نسلوں کی پرورش میں انجانی طاقت کے زیرِ سایہ ان سب عوامل کی آمیزش کر رہے ہیں اور تن کو بطورِاحسان ڈھکا ہوا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سارے کا سارا معاشرہ ہی اس روش کے زیرِ اثر ہے اور ہم سب کوایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ برائی اپنا اثر زیادہ تیزی سے دکھاتی ہے اور پھیلتی ہے۔ اصل بات جو اہمیت کی حامل ہے کہ ہماری دلی خواہش کیا ہے ؟ ہم نے مجبوراً یا احسان کے طور پر اپنے آپ کو مسلمان ہونے کی بنیاد پر چھپاکے رکھ رہے ہیں یا پھر ہم اندر سے کسی خواہش کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ کیا آج کسی بڑے کے ادب کے لیے کھڑے ہوجانا دقیانوسی عمل نہیں کہلاتا ۔کیا آج خونی رشتے معاشیات اور سہولیات کی دوڑ میں نہیں لگے ہوئے اور ایک دوسرے کو پیچھے کرنے کی تگ ودو میں نہیں جتے ہوئے ہیں۔
ہم وقت کی ضرورت کہہ کر کیا کچھ ٹالے جارہے ہیں اور اب جو کچھ ٹالا گیا ہے وہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن کر ہم پر لدنے والا (پلٹنے والا) ہے۔ ہم لوگ گھٹ گھٹ کر مرنے والے ہیں ہماری اخلاقیات ہمیں ایسے معاشرے میں جینے کا حق نہیں دے گی۔ ہم نے جو معاشرہ آج تک پڑھا اور ٹیلی میڈیا کی مرہونِ منت دیکھا ہے وہ خاموشی سے مگر بہت تیزی سے ہمارے معاشرے پر حاوی ہوا جا رہا ہے۔ ہم وقت کی تبدیلی کا جھوٹا راگ آلاپنے میں مصروف ہیں۔ ہم دہشت گردی کو رونے میں لگے ہوئے ہیں اس دہشت گردی کی آڑ میں کیا کچھ تباہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے ہمیں اسکا اندازہ کرنے کا بھی وقت نہیں ملنے والا۔ ہم نے اپنی تمام تر توجہ ان دیکھے اندیشوں میں پوشیدہ دہشت گردوں پر مرکوز کر رکھی ہے اس کے باوجود وہ ہمیں چکماء دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جس کی وجہ ہماری معاشرتی نظام پر توجہ نہ ہونا ہے۔ ہمیں بیک وقت انگنت مسائل نے گھیرے ہوئے ہے اور ہم ہیں کہ اپنی توجہ کسی ایک جانب کر کے باقی تمام مسائل کی وجہ سے کھوکھلے ہوئے جا رہے ہیں۔
ان تمام معاملات پر بیک وقت نظر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب ایک ایک پاکستانی اپنی ذمہ داری ملک کی بقاء اور سلامتی کیلئے پیش کردے۔ جس کے لئے حکومتی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ اسکولوں کی سطح سے کام شروع کیا جائے جہاں سے کم از کم سیکنڈری کلاسوں کے بچوں کی ذہنی نشونما اس طرح کی جائے کہ ایک ایک بچہ نظم و ضبط کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرے پھر یہ بچے اپنے چھوٹے ساتھیوں کو تربیت دیں۔ اس تربیت میں نہ صرف اخلاقیات پر توجہ دی جائے بلکہ ہمارے معاشرے میں ابھرنے والی ہر ہر خامی کی نشاندہی کی جائے اور ان خامیوں پر کس طرح سے قابو پانا ہے یہ بھی سکھلایا جائے۔ اسی طرح ادارے ان ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالیں۔
ہم اس وقت تک ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے جب تک ہم اقدار کی راہداری ہموار نہیں کریں گے۔ ترقی کرنی ہے تو سب سے پہلے طبعی کچرا صاف کرنا ہوگا اور پھر ہمیشہ صفائی کو شعار بنانے کیلئے نسلوں کی تربیت کرنا ہوگی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار کر ہی نہیں کرسکتا کہ ترقی تہذیب و تمدن کو روند کر حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہذا ہمیں سمتوں کا تعین کرنا ہوگا جوکہ شائد بہت پہلے کرلینا چاہئے تھا مگر اچھے کام کی شروعات کیلئے کبھی دیر نہیں ہوتی۔ سیاسی رنجشیں ختم کرنی ہوں گی کچھ سالوں کیلئے پاکستان کے لیے کام کریں‘ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کو تالے لگا دیں اور طے کرلیں پاکستان کو ایک آئیڈیل مملکت بنائیں گے۔ اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے سوائے ایسے لوگوں کے جو پاکستانیوں کو صحیح سمت کا بتا سکیں۔ ترقی تو ہم کر ہی رہے ہیں یہ معلوم نہیں ترقی تنزلی کی جانب لے کر جا رہی ہے یا کہ برتری کی جانب۔