پاکستان کی تاریخ میں ایک سابق سیاسی اتحاد آئی جے آئی کا مسلم لیگ نواز کی سیاست میں ایک اہم کردار مانا جاتا ہے ،جو 1988کے ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی سے مقابلے کے لیے تشکیل دیا گیاتھا،(آئی جے آئی )پاکستان جمہوری اتحادنو جماعتوں پر مشتمل تھاجس میں نوازشریف کی زیر قیادت مسلم لیگ کی اکثریت زیادہ تعداد میں تھی ،اس اتحاد کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی تھے مگر سینئر رہنما نوازشریف کو ہی تسلیم کیا جاتا تھا جو جنرل ضیاالحق کے دور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب فائز تھے۔
نوے کی دہائی کے عام انتخابات میں آئی جے آئی نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی کی 105کے قریب نشستوں کی بدولت نوازشریف صاحب نے اقتدار کو حاصل کیا اور اس ملک کے پہلی بار وزیراعظم بننے کا اعزازحاصل کیا،تاہم 93میں بعض سازشوں کے نتیجے میں ان کی حکومت کو ختم کردیاگیا۔
اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بے پناہ بدعنوانیوں کو بنیاد بناتے ہوئے ان کی حکومت کو برطرف کیا،اس سے نہ صرف نوازشریف کی حکومت ختم ہوئی بلکہ آئی جے آئی کا اتحاد بھی پارہ پارہ ہوگیا،جس کا فائدہ پیپلزپارٹی کو ملا اور بے نظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے منصب کو سنبھال لیا۔
خیرآئی جے آئی کے اتحاد کا خاتمہ ہوچکا تھا مگر ان انتخابات میں نوازشریف نے اپنے طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر چار یا چھ ووٹو ں کے فرق سے پیپلزپارٹی وفاق میں اپنا اقتدار بنانے میں کامیاب ہوگئی مگر یہ ایک بڑی کامیابی ملی کہ مسلم لیگ ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ملک کے منظر نامے پر سامنے آگئی تھی ،بے نظیر بھٹو کا دور نومبر 1996میں ختم ہوا ،لہذا 1997میں فوری طورپر عام انتخابات کا فیصلہ ہواجہاں نوازشریف دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے مگر انہوں نے جب اکتوبر 1999میں اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹاکر دوسرے نئے فوجی سربراہ کو لانے کی کوشش کی توایک فوجی کارروائی کے تحت ان کی حکومت کو ایک بار پھر سے ختم کردیا گیا جس کے بعد وہ ایک خفیہ معاہدے کے عوض سعودی عرب چلے گئے ۔
سنہ ٢٠٠٦ میں میثاق جمہوریت کے نام سے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پاکستان میں فوجی حکومت کا خاتمہ تھا جبکہ 2007میں عدالت کے حکم پر نواز شریف کو وطن واپسی کا موقع مل گیا،2013کے عام انتخابات میں نوازشریف ایک بار پھر سے ملک کے وزیراعظم بنے ،مگر اس بار ان کو کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہی مشیروں نے رسوا کیاجو بالاخران کی حکومت کے خاتمے کاسبب بنا،مگر نوازشریف کا گزشتہ دور آج 2013کی کامیابی کے چار سالوں سے کہیں بہتر تھاجس کی بڑی وجہ ان کے مسلم لیگ میں شامل وہ قربانیاں دینے والے مسلم لیگی تھے جو اپنے دلوں میں ہمیشہ ملکی خدمت کا جزبہ موجزن رکھتے تھے ۔
گو کے نوازشریف کو اپنا وقت پورا کرنے کاموقع نہ ملا مگر انہوں نے اپنے کم ترین وقتوں میں بھی2013کے چارسالوں کی نسبت بہت سے اچھے اور خوشحالی کے لیے کام کیے ۔اس زمانے میں ان کے دیرینہ اور پرانے ساتھیوں میں پنجاب سے غلا م دستگیر خان ، جاوید ہاشمی ،راجہ نادر پرویز ،چودھری شیر علی ،چودھری جعفر اقبال ،چودھری نثار علی خان سمیت دیگر ساتھیوں کا ساتھ ملا۔سرحد میں پیر صابر علی شاہ ،سردار مہتاب عباسی ،گوہر ایوب اور سندھ میں سید غوث علی شاہ ،صاحبزادہ شبیر حسن انصاری ،کیپٹن حلیم صدیقی ،خواجہ ماجد سلطان ،میاں اعجاز شفیع اور دیگر جانثار ساتھیو ں کا ساتھ تھا۔
سنہ 2013میں تو آصف کرمانی مفتاح اسماعیل،مصدق ملک ،محمد زبیر ،فواد حسن فواد ،طلال چودھری، دانیال عزیز اورعرفان صدیقی، جیسے لوگوں کا ساتھ ان کا مقدربنا۔جنھوں نے اقتدار ملتے ہی ایوان وزیراعظم پر ایسا قبضہ کیا کہ نواز شریف کے پرانے ساتھیوں کو ان سے دور ہی کردیا اور نوازشریف ایسے لوگوں میں جاگھسے جن کا مسلم لیگ ن سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہ تھا۔
ان لوگو ں نے نوازشریف کو اس طرح سے گھیرے میں لیا کہ نوازشریف کو درست فیصلہ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا یہ لوگ خود بھی کوئی کام نہ کرتے تھے اور نوازشریف کو بھی سب اچھا کی رپورٹوں میں لگائے رکھتے تھے،مفتاح اسماعیل کون ہے ؟ پارٹی کے لیے کیا قربانیاں ہیں ؟ جبکہ اس سے قبل وہ کراچی چیمبر آف کامرس کا عہدیدار تھاجو پرویز رشید جیسے حکومتی لوگوں سے تعلق داری کرکے وزیراعظم کا معاون خصوصی بنا اس کے علاوہ سوئی سدرن گیس کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا ہیڈ بننا بھی ان کی تعلق داریوں کا تسلسل ہے ۔
فواد حسن فواد پرنسپل سیکرٹری ٹوپرائم منسٹر کو بھی نوازشریف کی سیاسی تباہی کا ذمہ دار بتایا جارہاہے ایک ایسا بیوروکریٹ جس نے ہرمحاز پر مختلف طریقوں سے نہ صرف نوٹ چھاپے بلکہ پرانے مسلم لیگیوں کو نوازشریف کے قریب بھی نہ جانے دیاکیونکہ پرائم منسٹر کا ہرکام یہ ہی کرتا رہا ہے۔محترم آصف کرمانی صاحبب جو کہ آج کل سینیٹر کے عہدے پر فائز ہیں نوازشریف صاحب کی جلاوطنی کے بعد ہی ان صاحب کا دیدار دیکھنا نصیب ہوا ہے وگرنہ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا نہ ہی ان کی پارٹی کے لیے کسی قسم کی قربانیاں ہیں۔
کوئی پوچھے کہ یہ طلال چودھری کون ہے اور کون ہے یہ دانیال عزیز ؟ ان کا بھی پارٹی کے ساتھ کوئی اتنا واسطہ نہیں رہاہے یہ بھی فصلی بٹیرے ہیں جنھوں نے آصف کرمانی اور اوپر دیئے گئے ناموں کے ساتھ مل کر عدلیہ اور فوج کے کردار پر خوب نشتر زنی کی اور آئے روز میڈیا پر آکر اداروں کے خلاف دل کھول کر ہرزہ سرائی کی ۔اور جو اسحاق ڈار ،سعد رفیق ، خواجہ آصف ،پرویز رشیداورمشاہداللہ خان جیسے چند ایک پرانے لوگ ملے، انہوں نے بھی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ خواجہ آصف اور اسحاق ڈار تو خود ہی عقل کل بنے رہے ‘ انہوں نے پانامہ کے معاملے کو سیریز لینے ہی نہ دیا اور چھ ماہ تک حکومت کا( ٹی او آر) بننے ہی نہ دیا اور یہ ہی رٹ لگائے رکھی کہ لوگ خود ہی پانامہ کو بھول جائیں گے جبکہ اگر یہ لوگ پانامہ کے معاملے کو پارلیمنٹ میں لے آتے جس میں اپوزیشن والے بھی راضی تھے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی یہ کیس سپریم کورٹ میں جاتا اور نہ ہی نواز شر یف نااہل ہوتے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں