کسی نظرئیے کی افزائش سالوں پر محیط ہوتی ہے یعنی ایک سوچ کو نظریہ بننے میں ایک طویل سفر درپیش ہوتا ہے ، یہ سفر کٹھن اور مشقت سے بھر پور ہوتا ہے اس سفر میں صبرکا دامن نہیں چھوٹتا یعنی یہ عمل بالکل کسی سونے کو کندن بننے کیلئے آگ کی بھٹی سے گزرنے سے مماثلت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور نظریات کی بنیاد بہت سوچ بچار ہوتی ہے بہت سارے معاملات کا موازنہ ہوتا ہے پھر کہیں جاکہ کوئی نظریہ جنم لیتا ہے۔ اس لیے کسی بھی نظرئیے کو رد کرنا یا پھر اسے چیلنج کرنا عام لوگوں کا کام نہیں ہوتا۔
کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام بنیادی طور پرریاست کے نظریات کی بنیاد پر کھڑا ہونا چاہئے ۔ دنیا میں مختلف تعلیمی نظاموں کے تحت تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے او ریہ مروجہ نظام وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے کائناتی اور دنیاوی اعتبار سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں،تبدیلی کا یہ عمل جاری و ساری رہنے کے لیے ہے ۔
کہیں ابتدائی تعلیم کھیل کودسے شروع کی جاتی ہے اور کہیں تعلیم کا آغاز فنی طرز پر کیا جاتا ہے۔ علم کی افزائش اور نشو نما کے لیے ضروری ہے کہ علم کو عام کیا جائے اور باآسانی دستیاب کیا جائے ۔اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ علم کی مفت فراہمی بطور احسان نہ ہو۔ یعنی بنیادی تعلیم تمام سہولیات کے ساتھ بالکل مفت ہونی چاہئیں۔ بنیادی تعلیم دینے کے لیے ایسے مخلص اور محنتی لوگ تعینات کئے جائیں جو اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ وہ اپنے ہی نہیں بلکہ معاشرے کا مستقبل تیار کر رہے ہیں جس کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے ۔
دورِ حاضر میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے مگر وقت کی ضرورت ہے کہ آپ انہیں مراعات بھی اسی طرح کی دیں جس طرح کا آپ ان سے کام لینا چاہتے ہیں۔ جب کبھی بھی اساتذہ کا تذکرہ ہوتا ہے تو مجھے مرحوم اشفاق احمد صاحب کے ساتھ اٹلی کی عدالت میں پیش ہونے والے واقعہ پر جج کے تاریخی الفاظ میرے کانوں میں گونجنے لگتے ہیں اور وہ الفاظ تھے’ استاد عدالت میں ‘اور پوری عدالت بشمول جج کے کھڑی ہوگئی تھی۔
اساتذہ کا تعلیم دینے کا انداز ہی بچے میں آگے تعلیم کے شوق کر پروان چڑھانے پاپھر تعلیم سے پیچھا چھڑوانے والاہوتا ہے ۔ معاشرے کا ہر فرد مستقبل کے معماروں نشونما کا ذمہ دار ہے۔ بچوں میں صرف علم حاصل کرنے کی محبت اور شوق کو ہی نہیں پروان چڑھانا چاہیے بلکہ ایک ایساایسے انسان بننے کا عزم بھی اجاگر کرنا ہے جو معاشرے کو سدھارنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہوں اور ہمہ وقت تیار ہوں۔
اگر ہم تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ علم کاپیوں کو سیاہ کرنے کا نام نہیں تھا اور نہ ہی رٹے لگانے کو علم کہتے تھے۔ علم توسوچ بچار ، گیان اور ادب و آداب کے طفیل ملا کرتا تھا۔آج کتابیں لاد کر لے جانے والا بچہ کہاں سوچ بچار کرنے کا وقت رکھتا ہے اسے تو پہلے کلاس میں کام لکھوانے پر لگائے رکھا جاتا ہے اور پھر اس سے بڑھ کر گھرسے بھی اور کام کرنے کو دے دیا جاتا ہے ۔
یہ بچہ سوچ بچار اور گیان جیسے لفظوں سے ہی شناسائی نہیں بناپائے پھر ادب آداب تو دور ہی ہوا جاتا ہے۔ہمارا ملک مسلسل افراتفری کی ذد میں ہی رہتا ہے اور یہ افراتفری ہماری نسلوں کے ذہنوں پر بری طرح سے اثر انداز ہورہی ہے ۔اگر یہ افراتفری ہمارے ملک کے حکمرانوں نے پھیلائی ہوئی ہے تو اس افراتفری میں ہمارا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا سیاستدانوں کا۔ ہم بچوں کی سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے‘ بس اپنی بات منوانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
بڑوں کو بطور ڈھال اپنا کردار ادا کرنا تھا جو وہ کرنے سے قاصر رہے ہیں جس کی وجہ سے اقدار میں بہت تبدیلی آچکی ہے ۔ تعلیم طبعی اور روحانی دونوں طرح سے نئی نسل کیلئے بوجھ بنتی جا رہی ہے ۔ تعلیم کے حصول کا مقصد جو وقت اور حالات مرتب دے رہے ہیں وہ سوائے پیسہ کمانے کے اور کچھ سجھائی نہیں دے رہااس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ایسے الات کی ایجادات جسے زندگی گزارنے کیلئے لازمی قرار دیا جانا سونے پر سوہاگا کی مانند ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں اتنے زیادہ تعلیمی نظاموں کو نافذ نہیں ہونا چاہئے اور تمام اسکول سرکاری ہونے چاہئیں تاکہ درس و تدریس کو کاروبار بننے سے روکا جاسکے جو کہ اب تو ہوچکا ہے اور اس پر تادیبی اختیارات کا بھی استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ ملک کے ارباب اختیار اس کاروبار میں سرمایا کاری کئے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں وزارتِ تعلیم ایسا محکمہ ہے جو تمام تعلیمی نظاموں پر نظر رکھتا ہے مگر معلوم نہیں پڑتا کے کیسی نظر رکھی جاتی ہے۔
انگنت تعلیمی نظام رائج ہیں اور ان نظاموں پر باقاعدہ چیک کرنے والایہی سرکاری ادارہ ہے یعنی ہم نے اپنی نسل کی تباہی کیلئے بغیر لائسنس اسکول کھولنے اور اس میں اپنے من چاہے نصاب کا اطلاق کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی۔ ہمارے یہاں والدین کی ایک کثیر تعداد ان پڑھ ہونے کی وجہ سے بچوں کو معیاری وقت نہیں دے پاتے جس کی وجہ سے ان پچوں کوجو اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے یا پھر ٹیوشن میں پڑھایا جاتا ہے وہ اسے ہی عقل قل سمجھتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ تو اپنے والدین کو سمجھانا بھی شروع کر چکے ہوتے ہیں۔
اسکولوں کی بڑی بڑی دلکش عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور ایک ایک اسکول کے کئی کئی کیمپس ہیں جس کی وجہ سے پورے کراچی میں آپ کہیں بھی منتقل ہوجائیں آپ کو اپنا مطلوبہ اسکول کا نظام مل جائے گا اور آپ ایک بہت بڑے مسئلے سے بہت آسانی سے نکل جائیں گے۔ اسکول انتظامیہ کو اس بات کا بھی خیال نہیں ہوتا کہ ان کے اسکول تک پہنچنے کا راستہ خراب ہے یا صحیح ہے ، یہ اسکول انتظامیہ کا مزاج کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ سوائے اپنے اسکول کے احاطے کہ کہیں اور کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جس سے یہ تو پتہ لگانا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ وہ خرچہ صرف اور صرف اپنے اسکول کے اندر تک رکھنا چاہتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔
بلدیاتی اداروں کو چاہئے کہ وہ جتنے بھی بڑے بڑے اسکول ہیں ان کے ذمہ لگائیں کہ وہ اپنے آس پاس (علاقے کا تعین کر کے) صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں جس سے نا صرف بچوں میں صفائی کا جذبہ بیدار ہو بلکہ وہ اس پیغام کو آگے بھی بڑھانے میں عملی کردار ادا کریں۔ اسکولوں میں باقاعدہ اسکاؤٹس ہونے چاہئیں جو ناصرف نظم و ضبط کی تربیت لیں بلکہ اسکول انتظامیہ کی بھی دیگر سرگرمیوں میں مدد فراہم کریں تاکہ جب یہ طالب علم باہر نکلیں تو بکھرے ہوئے ماحول کو ترتیب دینے کی کوشش کریں۔
تعلیم دور حاضر میں جہاں طالب علموں پر بوجھ بنتی جا رہی ہے وہیں والدین کے لیے بھی تعلیم کو مالی طور پر برداشت کرنا کسی بوجھ سے کم نہیں رہا ہے ۔ خدارا تعلیم کو بوجھ بننے سے روکا جائے ورنہ بوجھ ایک وقت تک برداشت کیا جاتا ہے پھر اسے اتار کے اتنی دور پھینکا جاتا ہے کہ وہ قریب بھی نا آنے پائے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں