یوں تو ابتدا ء ہی سے دشمن ملک بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، کوئی بھی مخالفت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔دوسری طرف پاکستان نے ہمیشہ تعلقات میں بہتری کی کوششیں کیں۔مگر مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی بھارتی پاکستان مخالفت میں شدت آگئی۔بھارتی وزیر اعظم مودی انتہا پسند بھارتی تنظیم اشٹریہ سوائم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کے سرگرم رکن اور مسلم کش ایجنڈا ہندو تواء کے پیرو کار ہیں۔
مودی نے اپنی تنظیم سے پاکستان کی تباہی جیسے ناپاک وعدے کر رکھے ہیں، اور اپنی انتہا پسند بھارتی قوم سے عہد کر رکھا ہے کہ وہ کشمیر سمیت بہت سے پاکستانی علاقوں کو بھارت میں ضم کرے گا۔بھارت کی موجودہ حکومت اپنے ناپاک عزائم کے لئے سر گرم عمل ہے۔اپنے مقصد کو پس پردہ چلانا بھارتی وطیرہ ہوتا تھا مگر اب کے بار مودی سرکار سرِعام اپنے عزائم کا تذکرہ کرتی ہے۔
مختلف فورمز پر مودی نے پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی اور پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیں۔ وہ بذات خود بڑے فخر سے یہ بھی بتا چکے ہیں کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے میں ان کی تنظیم اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پس ِپردہ جڑیں کاٹنا تو بھارت کا معمول کا کام تھا مگر اب کی بار تو کھلم کھلا پاکستان کی تباہی کی باتیں کی جاتی ہیں۔
اس سب کی بڑی وجہ خطے کی بدلتی صورتحال ہے۔بڑی وجہ امریکہ بھارت تعلقات میں بہتری اور پاک امریکہ تعلقات میں کمی و کشیدگی بھی ہے۔پاکستان چائنا اکنامک کوریڈور جو خطے کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔بھارت تو ازل سے ہی اس منصوبے کا مخالف ہے ‘ امریکہ کو بھی یہ گوارا نہیں اسے لئے اس منصوبے نے امریکہ بھارت کو مزید نزدیک و یکجا کر دیا۔
خطے میں سیاسی صورتحال بدل چکی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔چائنہ روس اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک حامی بنتے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ کو یہ بہت ناگوار گزر رہا ہے کہ یہ خطہ ان کی مداخلت سے پاک ہو اور چین و روس اس کے مقابلے میں مضبوط ہو جائیں۔اسی لئے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت پر امریکہ نے انحصار شروع کردیا، بھارت کو اپنے اسلحے سے لاد کر خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا تاکہ کوئی اس خطے میں امریکہ کے مقابلے کھڑا نہ ہو سکے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک اب پاکستان کی حیثیت بدل چکی ہے اور امریکہ دن بدن پاکستان کو پریشرائز کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے،بھارت کو بھی عزائم مقاصد کی تکمیل کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔بھارت اس وقت اپنے اثر و رسوخ کی بلندی پر ہے اور نمبرداری کے نشے میں دھت ہے مگر اسے امریکی چالبازیوں کا قطعی علم نہیں یا شاید اسے پاکستانی دشمنی میں ہر علم سے لاعلم رہنا ہی بہتر لگتا ہے۔مگر بھارت کو جان لینا چاہئے کہ ایک دن امریکی گود میں کھیلتے کھیلتے وہ خود تباہ ہو جائے گا ۔
چائنہ اتنا مضبوط ملک ہے کہ بھارت اس کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتا ، یوں سمجھ لیجئے کہ ظاہری نمبرداری کے چکر میں بھارت تو ایک دن ٹکڑوں میں بٹ کے رہے گا۔بھارت اس وقت امریکی ملی بھگت اور پاکستان سے مخالفت و دشمنی کی بدولت سی پیک کو ناکام بنانے کی کاوشیں کر رہا ہے چاہے اس کی راہ میں اس کے اپنے مفادات بھی قربان ہو جائیں‘ اسے کوئی سروکار نہیں۔
اس ملی بھگت میں کچھ اسلامی ممالک بھی شریک ہیں ۔بلوچستان میں بھارت عرصہ دراز سے براستہ افغانستان تخریب کاریوں میں ملوث ہے مگر سی پیک کے آغاز کے بعد بھارت نے گلگت بلتستان میں بھی تخریب کاریاں شروع کر رکھی ہیں، کچھ نام نہاد لوگ بھارتی ایجنڈے کو گلگت بلتستان میں پروان چڑھا ر ہے ہیں۔پہلے تو بھارت نے کبھی خاطر خواہ اعتراض نہیں اٹھایا تھا مگر سی پیک کی تعمیر سے بھارتی حکومت نے کشمیر کے ساتھ گلگت کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔اسی طرح بلوچستان میں بھی مختلف لوگ بھارتی ایجنڈے کو پرموٹ کر رہے ہیں۔
پاک آرمی کی کاوشوں کی بدولت کچھ بہتری آئی مگر اب بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،چاہے ان کی تعداد بہت کم ہے مگر ان سے نمٹنا بہت ضروری ہے۔کچھ عرصہ قبل بھارت نے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں بلوچستان آزادی کے نام سے پاکستان مخالف مہم چلائی۔گزشتہ روز بھی اسی طرح کی مہم لندن میں بھی چلائی گئی۔ابھی جنیوا کی مہم کا چرچا ختم ہوا ہی تھا کہ بھارت نے پاکستانی مخالفت میں لندن کی مختلف سڑکوں اورگاڑیوں پر آزاد بلوچستان کے اسٹیکرز لگوائے دیئے۔
پاکستان نے اپنے دوست ملک برطانیہ سے سخت احتجاج کیا کہ برطانیہ ایسی مہم کی ہر گز اجازت نہ دے یہ پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے دنیا بھر میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے ،نام نہاد بلوچ تنظیمیں بھارتی مقاصد کا حصہ بن رہی ہیں۔پاکستانی حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے یہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں یہ ہماری سلامتی کا معاملہ ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ہماری سلامتی پر سوال اٹھائے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں