ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھتا چلا جائے اور اسے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ جس کے لیے سب سے لازمی جز آگے بڑھنے کے لیے راستے کا تعین ہوتا ہے جو اسے طے شدہ منزل کی جانب لے جائے۔ہر انسان کی آگے بڑھنے کی جستجو کا مقصد زندگی میں ترقی ہوتی ہے ۔زندگی کو زندہ رکھنے کے لیے اسے کسی نہ کسی مقصد کے حصول کی جستجو میں لگائے رکھنا بہت ضروری ہے۔بصورت دیگر یہ زندگی کسی غیر استعمال شدہ زنگ آلود مشین کی طرح خراب ہوتے ہوتے بیکار ہوجاتی ہے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں قدرت نے اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے اور ان کو عملی طور پر بروئے کار لانے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے دنیا کو انسانوں کے رہنے کے لیے بہترین سے بہترین بنانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی یا کسی بھی طرح سے اپنا حصہ ڈالا۔
سماجی میڈیا کی مرہون منت ان معاملات تک بھی نظر پہنچ جاتی ہے جن کی دید کی خواہش نہ رکھتی ہو‘ مثلاً گزشتہ روز ایک ایسی ہی دلچسپ اور دل دکھانے والی وڈیو بھی دیکھنے کو ملی جس میں ایک میزبان پاکستان کے کسی شہر میں پاکستانیوں سے یہ پوچھتے پھر رہے تھے کہ ۲۳ مارچ کو چھٹی کیوں ہوتی ہے؟ ۔اس پر وہ وہ جوابات ہماری سماعتوں نے سنے ‘ جو پاکستان کی معصوم عوام دے رہی تھی ۔
کہنے والے نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم یہاں (جس جگہ وہ تھے) نئے آئے ہیں اس لئے ہمیں نہیں معلوم کے یہاں ۲۳ مارچ کو کیا ہوتا تھا، کسی نے کیا خوب کہا کہ پاکستان ۲۳ مارچ ۱۹۴۷ کو آزاد ہوا تھا، ایک صاحب فرما رہے تھے کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور ان سے ملتے جلتے جوابات دئیے گئے اور جہاں تک ہم نے یہ وڈیو دیکھی اس میں شاید ایک صاحب نے صحیح جواب دیا تھا ورنہ دس پندرہ افراد اس تاریخ کی تاریخی حیثیت سے قطعی نا آشنا تھے اور اپنی اس کم علمی پر کسی شرمندگی میں بھی مبتلاء ہونے کو تیار نہیں تھے۔
گوکہ اس وڈیو کو پاکستانی معاشرے کی اکثریت سے وابسطہ نہیں کیا جاسکتا مگر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ اس وڈیو کی اکثریت نے تو پاکستان کی تاریخ پر سیاہی پھینک دی۔ اب ذرا سوچ لیجئے کہ ۲۳ مارچ کی ابھی تک چھٹی چلی جارہی ہے تو اس قوم کا یہ حال ہے اور جن اہم تاریخوں یا دنوں کے حوالے سے چھٹیاں ختم کردی گئی ہیں ان دنوں کو تو شاید آنے والے سالوں میں یکسر بھول جائیں۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ چھٹی ہونا ضروری ہے دراصل بات اس امر کی ہے کہ ہم نے دنوں کی اہمیت کو نظر انداز کردیا ہے، اخبارات اور رسائل میں آج بھی وہ سب کو دستیاب ہے جو ہوتا تھا مگر اب لوگوں کا رجحان ان کی طرف نہیں رہا ہے اور اس رجحان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سماجی میڈیا تاریخ کو بدلنے میں سرگرم عمل ہے۔ ۱۴ فروری اور ۸ مارچ جتنے پرتپاک انداز سے یاد رکرایا جاتا ہے اگر اس کا آدھا بھی ان قومی دنوں کے لیے وقف کردیا جائے تو معاملہ قدرے مختلف ہوسکتا ہے۔ جوقومیں اپنی تاریخ یاد نہیں رکھتیں تو تاریخ بھی انہیں یاد رکھنا نہیں چاہتی اور تاریکی میں دفن کردیتی ہے۔
ہم بطور پاکستانی قوم ۲۳ مارچ کی چھٹی بھی کسی عام سی چھٹی کی طرح گزار دیتے ہیں صرف ۲۳ مارچ ہی نہیں ہر وہ چھٹی جو تاریخی اہمیت کی حامل ہو جبکہ ان ایام کو بھرپور طریقے سے منانے کیلئے بے چین رہتے ہیں جن کی واجبی سی حیثیت ہوتی ہے ۔ ہم۲۳ مارچ کی اہمیت کو فقط پریڈ تک محدود کر کے رہے گئے ہیں اور وہ بھی ان لوگوں کیلئے اہم ہوتی ہے جنہیں پریڈ گراؤنڈ جانا ہوتا ہے یا پھر کچھ ملک کی محبت کے ستائے ہوئے صبح اٹھ کر ملک کی ترقی و دوام کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اور گھر میں ٹیلی میڈیا کے توسط سے پریڈ دیکھ کر اپنا سینہ پھلا کر ایٹمی طاقت والا پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ ہر سال پریڈکے ساتھ ساتھ ہر آنے والے سال کیلئے کوئی نا کوئی قرارداد رقم کرتے رہتے ، بالکل ویسے ہی جیسے ۱۹۴۰ میں پیش کی جانے والی قرارداد تھی اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب نے تن من دھن کی بازی بھی لگائی اور پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ پاکستان کے ایوانوں میں منتخب سیاستدانوں کو ہر ۲۳ مارچ کو قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کا اجلاس کا انعقاد اس کھلی جگہ کرنا چاہئے جہاں قراد پاکستان پیش کی گئی تھی اور کوئی ایک ایسی قرار داد پیش کی جائے جو کہ سراسر ملکی بقاء کیلئے ہو اور مفاد عامہ کیلئے ہو۔
آج ملکِ خداداد بری طرح سے بدعنوانی کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے ، بدعنوانی وہ عنصر ہے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پروان چڑھی بلکہ ہم غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس سے پاکستان کا خوبصورت روشن و منور چہرہ لہولہان ہوکر رہ گیا۔ پھر ہمارے صاحب اقتدار و اختیار لوگوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے چکر میں اپنے ملک کو کھنڈروں میں تبدیل کرنا شروع کردیا مگر اس بنیادی عنصر پر دھیان نہیں دیا جس کی وجہ سے پاکستان اس نہج تک پہنچا تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ بدعنوانی کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی ہو ہاں مگر آواز ہر شخص نے اٹھائی جو کہ خود بدعنوان تھا ۔ ایسے نعروں کا وقت بہت قریب آچکا ہے یہ گزرتا ہوا سال انتخابات کا سال ہے اور انتخابات کی گہما گہمی میں ہر کوئی جلسے کو گرمانے کیلئے یہ کہتا سنائی دیگا کہ اس نے بدعنوانی ختم کرنے کیلئے کیا کیا قربانیاں دیں (جبکہ اصل میں بدعنوانی کرنے کیلئے کیا کیا قربانی دے چکے ہوتے ہیں اور عوام جانتے بھی ہیں)۔
۲۰۱۳ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وفاق میں حکومت بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) تھی ، اس جماعت نے جیسے تیسے انتخابات میں کامیابی ہی حاصل نہیں بلکہ میاں نواز شریف صاحب کو پاکستان کی تاریخ رقم کرتے ہوئے تیسری دفعہ وزیر اعظم بنا دیا۔ سچ اور جھوٹ میں اٹا ہوا یہ اقتدار سمندر میں کسی ہچکولے کھاتی ناؤ کی طرح چلتا رہا اب جبکہ جمہوری روایات کو سنبھالتے سنبھالتے دور اقتدار کا سورج غروب ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔ یہ ایک ایسا جمہوری دور تھا کہ سارا وقت جمہوریت کو سنبھالتے سنبھالتے گزر گیا۔ اس جمہوریت کو سنبھالنے میں معاشرتی اور سیاسی اقدار کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ عدالتی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ملک کا وزیر اعظم بدعنوانیوں میں ملوث ہے۔
میری اپنے قارئین سے خصوصی درخواست ہے کہ آنے والے انتخابات میں اپنی تمام تر ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اس کے حق میں فیصلہ دیں جو ہمیں اس بات کا یقین دلائے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کر کے ہی کوئی دوسرا کام کرے گا، ایسے شخص کی اور ایسی جماعت کا تعین ہم نے آپ نے خود کرنا ہے کیوں کہ ہمیں پتہ ہے کہ ملک کے لگی جونکیں کون ہیں اور کون ملک کی رگوں میں خون ڈوڑا رہا ہے ۔ آئیں اس سال کی قرارداد بدعنوانی ختم کرنے کی پیش کرتے ہیں اور ایسی جماعت کو یا ایسے لوگوں کو ایوانوں تک پہنچانے کیلئے کمر کستے ہیں جو اس قرارداد پر قرارداد پاکستان جیسا عمل کرکے دکھائیں گے۔ اس بدعنوانی کو جڑسے نکال کر پھینکنا ہوگا پھر کہیں جاکہ پاکستان کے چہرے پرحقیقی رعنائی آئے گی اور اس کے لیے کسی قسم کا بناؤ سنگھار نہیں کرنا پڑے گا۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں