آج سے 14سال قبل 2004میں عارف امین پہلی دفعہ جنت پہنچے ، وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے انہوں نے جنت کو صرف سن رکھا تھادیکھا نہیں تھا۔وہ سطح سمندر سے 4,114میٹر(13,497)فٹ کی بلندی پر واقع بلتستا ن کے ضلع سکردو کی بانہوں میں سمٹے ہوئے دیو سائی صرف سیر کی غرض سے گئے تھے، لیکن ان کا دل و دماغ آج تک دیوسائی کی خوبصورتی کے سحر میں کھویا ہے ۔عارف امین دلوں کو موہ لینے والے اس دیو سائی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے دیو سائی کے چاند کی چمک،سورج کی دمک، بادل کی گرج،گھٹاؤں کی برس، پھولوں کی مہک اور پرندوں کی چہک کو اپنی تصویری کتاب ’’دیو سائی کے رنگ‘‘ میں قید کر لیا ہے۔
دیو سائی کا کل رقبہ تین ہزار سکوائر فٹ پر مشتمل ہے ،دیو سائی کا شما رسطح مرتفع پر واقع بلند ترین علاقوں میں ہوتا ہے جس کی سرحدیں قرا قرم اور کوہ ہمالیہ سے ملتی ہیں ، مقامی لوگ دیو سائی کو غبیارسہ کہتے ہیں ،یعنی موسم گرما(بہار) کی جگہ،وکی پیڈیا کے مطابق اس جگہ تک رسائی صرف سمر میں ممکن ہے اسی لئے مقامی لوگ اسے غبیارسہ کہتے ہیں ۔دیو سائی میں سردیاں طویل ہوتی ہیں اور قدرت سردیوں میں اس پورے علاقے کو برف سے ڈھانپ دیتی ہے جیسے دلہن نے دوپٹہ اوڑھ رکھا ہو اور جیسے ہی موسم بہار آتا ہے تو یہ دلہن منہ دکھائی کے لئے تیار دکھائی دیتی ہے اور سینکڑوں اقسام کے نایاب ترین لہلہاتے پھول ہر آنے والے کا پرتپاق استقبال کرتے ہیں جیسے باراتیوں کا کیا جاتا ہو ۔
دیو سائی سطح سمندر سے ہزاروں میٹر بلندی پر سر سز و شاداب ہموار زمین ہے جسے دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ،دیو سائی میں دنیا کے نایاب ترین پھول کھلتے ہیں ،ایک تحقیق کے مطابق یہاں موسم بہار میں342مختلف اقسام کے پھول کھلتے ہیں۔ دیو سائی جنگلی حیاتات سے بھی مالا مال ہے اور یہ ان علاقوں میں سے ہے جہاں دنیا کا نایاب ترین براؤن ریچھ اپنی بقاء میں کامیاب رہا ۔دیو سائی میں ایک خو بصورت ترین جھیل ،شاؤ سر جھیل بھی ہے جہاں ضلع سکردو اور استور دونوں کے ذریعے رسائی ممکن ہے ۔جیسے ہی برف کی چادر ہٹا دی جاتی ہے تو دنیا بھر کے انمول پرندے یہاں اپنی افزائشِ نسل کے لئے آتے ہیں جن میں ایک خوبصورت ترین انمول نسل کی فاختہ جسے (Turtle Dove)کہا جاتا ہے قا بل ذکر ہے۔
دیو سائی کے رنگ کی تقریب رونمائی میں عارف امین نے بتایا کہ قدرت کے اس حسن کو اس کتاب میں قید کرنے کے لئے کم و بیش بیس ہزار(20,000) تصاویر بنائی گئیں اور اس دوران ان کے قریبی ساتھی غلام رسول جو کہ ایک وائلڈ لائف فوٹو گرافر ہیں اور ان کی باقی ٹیم کن خطرات سے درپیش رہے اس کا بھی ذکر کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جنت کے اس ٹکڑے کو ایک تصویری کتاب میں سمو کر عارف امین ،غلام رسول ،ان کی دیگر ٹیم اور با لخصوص اینگرو فوڈز نے اپنے حصے کی شمع روشن کی ہے مگر ہمارے سرکاری متعلقہ اداروں کو بھی پاکستان کا یہ خوبصورت و روشن چہرہ دنیا کے سامنے کسی نہ کسی صورت رکھنا ہوگا۔ دنیا بھر میں مہم جوئی کےشوقین قدرتی نظاروں کا ذوق رکھنے والوں کیلئے یہاں تک رسائی کو آسان بنانا ہوگا تاکہ اپنی آنکھوں کو دلکش و دلفریب، حسین اور دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچ لینے والی جنت نظیر سے خیرہ کرنے کے خواہش مند با آسانی یہاں تک پنہچ سکیں اور پاکستان کا یہ روشن چہرہ بھی دنیا کو دکھایا جاسکے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں