The news is by your side.

پاکستان کی سب سے بڑی یونی ورسٹی کا المیہ

دنیا کے دوسرے خوبصورت ترین دارالحکومت اسلام آباد کے سر سبز و شاداب مارگلہ ہلز کے دامن میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جس نے دنیا بھر کی بہترین 500 جامعات میں اپنی جگہ بنائی ہے، کچھ روز قبل ایلومنائی ایسوسی ایشن کے سیکر ٹری جنرل محمد مرتضیٰ نور کی جانب سے ایک دعوت ملی اور یونیورسٹی میں جاری ایک غزل نائٹ میں جانے کا اتفاق ہوا ،اس موقع پر وائس چانسلر ،اساتذہ طلباء ،طلباء تنظیموں کے نمائندگان، متعدد سینیٹرز اور ممبر نیشنل اسمبلی جو قائد اعظم یونیورسٹی سے فار غ التحصیل ہیں ایک ہی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔

میں نے اس محفل میں وائس چانسلرز،بیوروکریٹس،معروف ملکی سیاست دانوں کی ایک کہکشاں سجی دیکھی ،مزید معلومات حاصل کرنے پر معلوم پڑا کہ سابق گورنر سٹیٹ بینک اشرف وتھرا، سابق گونر اسٹیٹ بینک مسز شمشاد، چانسلر پرسٹن یونیورسٹی ڈاکٹر عبدالباسط،وائس چانسلر ایجو کیشن یونیورسٹی ڈاکٹر رؤف اعظم،پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر،ڈاکٹر ثقلین نقوی باچا خان یونیورسٹی،ڈاکٹر طاہر امین بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی،ڈاکٹر قیصر مشتاق وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،معروف اینکر پرسن کاشف عباسی،نسیم زہرا،طلعت حسین،اشد شریف ،دو درجن سے زائد وفاقی و صوبائی سیکر ٹریز،بیرون ممالک میں وطن عزیز کا نام روشن کرتے ہوئے کئی سفرا ء بھی قائد اعظم یونیورسٹی سے فار غ التحصیل ہیں ۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی شدید انتشار کا شکا رہے، گرلز ہاسٹل میں طلباء کی جانب سے ہلڑ بازی کی کئی خبریں گردش کر رہی ہیں ،منشیات کاا ستعمال چھوڑیں یہاں تو منشیات فروشی بھی عام ہو چکی ہے اور کئی طلباء کو اس میں ملوث پا کر پولیس گرفتار کرچکی ہے ،یونیورسٹی کی لسانی طلباء تنظیمیں اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں ،تنظیموں نے گزشتہ دس روز سے یونیورسٹی کا تدریسی و انتظامی عمل بند کر رکھا ہے ، مظاہرین رات بھر سڑکوں پر ٹینٹ لگا کر سوتے ہیں، کلاسز کا مکمل بائیکاٹ ہے۔

داخلے کے خواہشمند حضرات کے لئے 10اکتوبر کو میرٹ لسٹ لگنی تھی وہ بھی نہیں لگ سکی،پرو چانسلر قائد اعظم یونیوسٹی و وزیر تعلیم انجینئر بلیغ الرحمان نے مظاہرین سے ملاقات کی ہے اور انہیں مکمل یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ انہیں انصاف دیا جائے گا ،مگر مظاہرین کا کہنا ہے کہ زبانی کلامی دعووں کا زمانہ گزر گیا جب تک عملی طور پر کام نہیں ہو جاتا تب تک احتجاج ختم نہیں ہوگا۔ایک خبر کے مطابق اگلے ماہ قائد اعظم یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کا اجلاس ہے جس میں مظاہرین کے مطالبات زیر بحث لائے جائیں گے یعنی تب تک حالات جوں کے توں رہنے کا خدشہ ہے۔

احتجاجیوں اور ہڑتالیوں کے واضح مطالبات یہ ہیں کہ سمر کورسز آفر کئے جائیں ، قائد اعظم یونیورسٹی ایک سرکاری ادارہ ہے جہاں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں لہذاآسمان سے باتیں کرتی فیسوں کو زمین پر واپس لایا جائے ،یونیوسٹی میں میڈیکل سینٹر بنایا جائے اور گرلز ہاسٹل میں چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز کی سہولیات فراہم کی جائیں،میرٹ پر سیٹیں خالی ہونے کی صورت میں سیلف فنانس پر پڑھنے والے طلباء کو میرٹ پر اپ گریڈ کیا جائے ،مجھ سمیت تمام قارئین احتجاجیوں کے ان مطالبات کو تہہ دل سے تسلیم کتے ہیں او یقین دلواتے ہیں کہ اس احتجاج میں احتجاجیوں کے شانہ بشانہ شامل ہیں اور یقین کرتے ہیں یونیورسٹی کے لئے ان مطالبات کو تسلیم کرنا کوئی بڑی بات نہیں بالخصوص ایسے وقت میں جب وزیر تعلیم اور دیگر متعلقہ ادارے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا چکے ہیں۔

یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ مطالبات تسلیم کر لینا انتظامیہ کا فرض ہے تو پھر تمام سٹیک ہولڈرز انتظامیہ کے حامی اور احتجاجیوں کے مخالف کیو ں دکھائی دے ہے ہیں ؟ ایسی کونسی بات ہے جس پر یونیورسٹی انتظامیہ بھی بضد ہے اور دونوں فریقین کے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نظر نہیں آتی؟اسے سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا۔

،دراصل ان چھوٹے چھوٹے مطالبات کے پیچھے ہڑتالیوں اور احتجاجیوں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان تمام طلباء کو بحال کیا جائے جنہیں سندھ اور بلوچ کونسل کے آپسی جھگڑے کی پاداش میں فارغ کیا گیا تھا اور یہی مطالبہ یونیورسٹی کے لئے ماننا انتہائی مشکل ہے ،کیونکہ اس جھگڑے سے نہ صرف یونیورسٹی کا ماحول خراب ہوا بلکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی بھی ہوئی، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح آپس میں گتھم گتھا نوجوان ایک دوسرے کو ہاسٹل کی چھتوں سے نیچے پھینکتے رہے ،تصادم رکوانے کے لئے کوشاں پولیس اہلکاروں پر ہاسٹلز کی چھتوں سے پٹھراؤ کیا گیا،جھگڑالو اور متشدد طلباء کی جانب سے میڈیا نمائندگان پر شدید تشدد کیا گیا ،کیمرے توڑ دئے گئے اور میموری کارڈز بھی چھین لئے گئے ،جس کے بعد پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ کی گئی ، ہاسٹلز خالی کروانے کے لئے گرینڈ آپریشن کیا گیا ، ،ایسا لگتا تھا جیسے افغانستان میں امریکی فوج کا آپریشن جاری ہو اور یہ تماشہ سوشل میڈیا پر بھی انہیں طلباء کی جانب سے وائرل ہوا اور پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا المیہ پوری دنیا نے دیکھا۔بدلے کی آگ بجھانے کے لئے پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی کو میدان جنگ بنانے والے لسانی گرو ہ اب مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں ،یونیورسٹی کی جگ ہنسائی کا باعث بننے والوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔

اس بار قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف بھی حق پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں واضح کہا ہے کہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے،ضرورت پڑی تو ایک بار پھر سے گرینڈ آپریشن کروائیں گے، ڈاکٹر جاوید اشرف یقیناًایک دانا اور محنتی شخص ہیں جن کی کاوشوں کے نتیجے میں آج قائد اعظم یونیورسٹی دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہوئی، جامعات کی عالمی رینکنگ جاری کرنے والا دنیا کا معروف ترین ادارہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن بتاتا ہے کہ قائد اعظم یونیوسٹی پاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جو 2017میں دنیا کی 500بہترین جامعات میں شامل ہوئی ہے اور ہم بھی یہ بات جانتے ہیں کہ اس سے پہلے تک جاری ہونے والی رینکنگز کے بعد اخبارات میں ہمیں یہی خبر ملتی تھی کہ بھات اور چین دنیا کی 500بہترین جامعات میں شامل ہیں لیکن پاکستان اس دوڑ سے باہر ہے۔

آخر میں اس حوالے سے بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم یونیورسٹی جیسا بڑا ادارہ جہاں سے کوہ نور نکلا کرتے تھے آخر اس قدر انتشار کا شکار کیوں؟،ہیرے موتیوں کی یہ کان کوئلے کی کان کیسے بن گئی ؟یونیورسٹی میں پھیلتی بد امنی کی وجہ کیا ؟ منفی سر گرمیوں کا بڑھتا ہوا رحجان کیوں؟۔

دراصل قائد اعظم یونیوسٹی میں کوٹا سسٹم ہے،یہاں مختلف صوبوں سے تعلق کھنے والے طلباء کو کوٹے کے حساب سے سیٹیں دی جاتی ہیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ماجے گامے بھی یونیورسٹی تک پنہچ جاتے ہیں اور یہاں آتے ہی وہ فروغ ِثقافت و تہذیب کے نام پر لسانی گروپوں کا حصہ بن جاتے ہے اور پھر ذاتیات کی جنگ میں یونیورسٹی کے تقدس کو بلی کا بکرا بنایا جاتا ہے ۔

پاکستان میں ضیا ء الحق کی جانب سے9فروری 1986کو طلبا ء یونین پر پابندی لگائی گئی جس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمی ٰکے دور میں 1989میں پنجاب بھر میں طلباء یونین کے آخری الیکشن ہوئے جو تین ماہ بعد ہی کالعدم قرار دے دئے گئے ،1989کے بعد سے آج تک تعلیمی اداروں میں طلباء یونین الیکشن نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ان لسانی اور مقامی گروپس کو تقویت ملی ،تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سر گرمیوں کا فقدان ہوا اور شدت پسندی نے جڑیں مضبوط کیں۔

موجودہ چیئرمین سینیٹ نے ایک خصوصی کمیٹی اس حوالے سے تشکیل دے رکھی ہے ،قومی اسمبلی میں بھی طلباء تنظیموں کے الیکشن کی باز گشت ہے امید ہے کہ جلد پاکستان کے تعلیمی اداروں میں گروپ بندیاں ختم ہو جائیں گی ، حقیقی طلباء تنظیموں کو ان کا جمہوری حق ملے گا اور تعلیمی اداروں میں ایک بار پھر سے غیر نصابی سرگرمیاں فروغ پائیں گی ،شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا،امن وامان ہوگا،جمہوری و مستحکم پاکستان ہوگا۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

 

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں