کلاسک اردو ادب کے شعراء و ادباء کی اکثریت کا تعلق بر صغیر پاک و ہند کے چھو ٹے شہروں یا غیر معروف علاقوں سے رہا ہے ، گدڑی میں چھپے ہوئے یہ لعل نا صرف اپنے علاقوں کی پہچان بنے بلکہ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ تخلص یا قلمی نام کے ساتھ شہریت بھی کئی کے نام کا حصہ بن گئی۔ آج کی نسل کے لیے لدھیانہ اور دہلی کی اصل پہچان ساحر لدھیانوی اور اور داغ دہلوی ہی ہیں ۔ اردو ادب کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر بڑے ادیب نے دیگر موضوعات پر طبع آز مائی کے ساتھ ناول ، افسانوں یا سفر ناموں کے ذریعے اپنے آبائی شہروں کے رسم و رواج، رہن سہن اور ثقافت سے دنیا کو روشناس کروایا ۔ بلاشبہ یہ ان شہروں کے گلی کوچے اور قصے کہانیاں ہی ہیں جنھوں نے نامور ادباء کی تحریروں میں تاریخ و ثقافت کے رنگ بھر کر انھیں ادب کے راج سنگھاسن پر براجمان کیا ۔
ٹالسٹائی کا ماسکو ہو، دوستووسکی کا سینٹ پیٹرز برگ، ٹیگور اور ستیہ جیت رے کا کلکتہ ، قرۃ العین حیدر کا لکھنؤ، صادقین اور جون ایلیا کا امروہہ ، نجیب محفوظ کا قاہرہ ،یا پاموک کا استنبول ، دنیا بھر میں علم و ادب اور سیاحت کے شیدائیوں تک ان شہروں کی رنگا رنگ ثقافت کی بازگشت ان مصنفین کی تحاریر کے ذریعے پہنچیں۔ مگر لاہور شہر ہر دور میں اس المیے سے دوچار رہا کہ کئی نامور ادباء کو جنم دینے کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی سنجیدگی سے اس پر کوئی باقاعدہ کتاب لکھنے کی زحمت نہیں کی۔ حالانکہ اپنے تاریخی دروازوں ، محرابوں اور جھروکوں تلے جو لاہور آج بھی سانس لیتا ہے وہ کسی طور بھی دمشق یا قرطبہ کی گلیوں سے کم نہیں ۔ دنیا بھر کے ادیب اپنے مرے ہوئے، صدیوں کی گرد میں مدفون شہروں کو اپنے ناولز اور افسانوں کا مرکز بناتے رہے مگر ہمارے یہاں محض اے حمید اور انتظار حسین کی تحر یروں میں کہیں کہیں لاہور کی قدیم ثقافت کے رنگ جھلکتے نظر آتے ہیں مگر انداز سر سری سا ہےجو اس تاریخی شہر کے متنوع و ہمہ گیر کلچر کو پوری طرح قاری کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اگرچہ رڈیارڈ کپلنگ اور شیخ مجید نے بھی اس شہر کے چند بھید کھولنے کی کوشش کی ہے ، مگر پچھلے برس ایک ایسی کتاب منظر عام پر آئی جسے کئی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ سب سے پہلے تو اس کے مصنف ‘ مستنصر حسین تارڑ’ ہیں ،سفر نامہ نگاری میں جن کا اسلوب اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہے ۔ دوسری جانب یہکتاب لاہور کی گلی کوچوں کی سیر کے ساتھ انکی ایک باقاعدہ مکمل مرتب شدہ تاریخ بھی فراہم کرتی ہے جس کے لیئے مصنف نے مستند حالہ جات کا سہارا لیا ہے ۔
408 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا آغاز ان دلچسپ تذکروں کے ساتھ ہوتا ہے جنھوں نے مصنف کو دسمبرو جنوری کی ٹھٹرتی صبحوں میں لاہور کے میناروں ، جھروکوں ، تیزی سے مسمار ہوتے تاریخی آثاروں و مساجد کی کھوج اور سینکڑوں شکستہ برجوں ، حویلیوں اور کھنڈر ہوتی قدیم لاہور کی حویلیوں، عمارتوں کی کوچہ گردی پر اکسایا کہ صدیوں کے آثار اب مٹتے جاتے ہیں اور پرانے لاہور کو ٹریڈ مافیا کے اژدھے نگلنے کے در پے ہیں ۔
لاہور آوار گی کا آغاز مصنف اپنے کچھ قریبی دوستوں کے ساتھ دھند میں ڈوبی ہوئی اتوار کی ایک بھیگی بھیگی سی میں صبح لاہوری دروازے کے عظیم الشان پھاٹک سے کرتے ہیں جہاں کا حلوہ پوری اور سری پائے کا ناشتہ پورے لاہور میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔، یہیں سے کچھ فاصلے پر شہزادہ نونہال سنگھ کی تاریخی حویلی ہے جو کسی دور میں ‘لاہوری تاج محل’ کے نام سے مشہور تھی۔ موری دروازے کے باہر برگد کا وہ درخت اب بھی اپنی اسی شان سے موجود ہے جہاں راجہ جے پال نے محمود غزنوی کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کے بعد ‘جوہر ‘ کی رسم ادا کر کے خود کو نظر ِ آتش کیا تھا ۔ موری دروازے کے بعد اگلا پڑاؤ لاہور کا تاریخی دلی دروازہ ہے جہاں سے ‘شہزادہ داراشکوہ ‘فجر کی نماز کے بعد اپنے مرشد میاں میر صاحب کی قبر پر حاضری کے لیئے گزرا کرتا تھا۔
مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ قاری کی لاہور یاترا حویلی سلطان کے شیش محل کے بعد منشی دینا ناتھ کی حویلی اور شاہی حمام تک جاری رہتی ہے جہاں وہ اسے باقاعدہ تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ان مقامات کی زبوں حالی کا حال سناتے ہیں ۔ یہاں ان مصوروں ، موسیقاروں ، فلم و ڈاکومینٹری میکرز اور مصنفین کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے کمرشلزم کی یلغار تلے مسمار ہوتی تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی آغا خان فاؤنڈیشن کی ان کوششوں کا بھی تذکرہ بھی کیا گیا جن کی مالی معاونت سے قدیم لاہور کی بحالی اور تعمیر نو کے کئی پراجیکٹس شروع کیئے گئے ہیں۔ یہاں قاری کو ڈاکٹر اعجاز حسین ، نذیر احمد کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے تو ساتھ ہی لاہور کی اصل ثقافت ، موسیقاروں ، گویوں ، اکھاڑوں اور تکیوں کو محفوظ کرنے والے نقوش کے لاہور نمبر کا بھی۔ مصنف اسے اقبال حسین اور احمد چیمہ کے انوکھے ریستورانوں کی سیر بھی کراتے ہیں جہاں لاہور کی بہترین خوراک ، شاہی انداز میں دیدہ زیب مناظر کے ساتھ دستیاب ہے۔
اگلے باب میں تارڑ صاحب پڑھنے والے کو گئے زمانوں کی سیر پر لے نکلتے ہیں ۔ کسی دور میں یہاں ایک گمشدہ ہو چکی نہر دریائے راوی سے جدا ہوکر قدیم شہر کے گرد آبی گہنے کی مانند سجی ہولے ہولے بہتی تھی۔ ۔ جس کے کنارے جاڑےکے ٹھٹرتے سویروں اور گرمیوں کی حبس ذدہ شاموں میں برگد اور آم کے درختوں کی چھاؤں تلے کبھی میلے لگا کرتے تھے۔ پہلوان اکھاڑوں میں اترتے اور لوک شاعروں و گلوکاروں کی منڈلیا ں جما کرتی تھیں ۔ اس باب میں کثرت سے لاہور کی قدیم مساجد اور اس عہد کے دلکش فن ِ تعمیر کو اس قدر برجستہ اور رواں انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری گئے زمانوں میں پہنچ کر خود کو ان مساجد میں عبادت کرتا محسوس کرتا ہے جب ان کی پرشکوہ عمارتیں حوادث ِ زمانہ کی نظر ہو کر یوں کھنڈر نہ ہوئی تھیں ۔
لاہور آوارگی کا دلچسپ ترین حصہ لاہور کی آرٹ گیلری میں اس شہر کے رخصت ہوتے رنگوں کی سیر ہے جہاں ہلال ، صلیب ، مقدس آگ اور شو مہاراج کی تصاویر کے ساتھ لاہور کی ہمہ رنگ ثقافت کی قوس و قزح بکھری نظر آتی ہے۔ یہاں نو بہار کی رنگینیاں بھی ہیں اور بیتھون کا ‘ مون لائٹ سناٹا ‘ گاتا ہوا عیسائی بوڑھا بھی ،لکشمی مینشن میں آباد ہندو گھرانوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور لاہور کے بازار ِ حسن و ہیرا منڈی کی اصل ماحول کی جھلک بھی دکھلائی دیتی ہے جہاں کی باقاعدہ خاندانی رقاصائیں آج گلبرگ و ڈیفنس کے عالیشان بنگلوں میں اپنے دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں مگر نہ رقص میں وہ پہلا سا سرور ہے نہ ہی لاہور کی صداؤں میں وہ سریلی آوازیں اور صدائیں رس گھولتی سنائی دیتی ہیں جو اس کی قدیم ثقافت کی امین تھیں ۔
کتاب میں جا بجا ان عوامل پر سیر حاصل اور کھرا تبصرہ کیا گیا ہے جن کی بدولت شہر لاہور کا اصل چہرہ آہستہ آہستہ مسخ ہوتاگیا۔ تاجروں اور سیاستدانوں کی ہوس پرستی نے اس شہر کے صدیوں پرانے تاریخی آثار جس بے دردی سے تباہ کیے ہیں اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ دنیا بھر کی حکومتیں تعمیر ِ نو اور شہروں کو وسعت دیتے وقت وہاں کی تاریخی عمارات کی حفاظت کا بھرپور انتظام کرتی ہیں مگر ایک بد قسمت شہر لاہور جہاں میٹرو بس سروس سے لے کر ، فلائی اوورز ، پلوں اور شاہراہوں کے جال بچھانے تک کسی بھی موقع پر اس کے اصل خدوخال کو بحال رکھنے کی رتی بھر کوشش نہیں کی گئی ۔ مگر مستنصر، ڈیلفی کے پہاڑوں پر مقیم اوریکل بابا کی طرح پیشن گوئی کرتے ہیں کہ آئندہ زمانوں میں کوئی ایسا ضرور آئے گا جو اس تاریخی شہر کی اصل ہیت کو بحال کر سکے گا۔
اگرچہ لاہور آوارگی کی گیلری میں جتنی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں وہ اس شہر کی قدیم تاریخ ، متنوع ثقافت ، رسم و رواج و تعمیرات اور علوم و فنون کی ہو بہو منظر کشی نہیں کرتیں ، بہت سی عمارات اور ان سے منسلک شخصیات کا حوالہ دینے کے لیے مصنف نے بے دریغ تاریخی کتب اور دیگر ذرائع کا سہارا لیا ہے مگر اس کے ساتھ اپنے مخصوص برجستہ اور پر تفنن انداز میں اپنی لا علمی کا اظہار بھی کر دیا ہے تاکہ اسے حرف ِ آخر نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ لاہور کی تاریخ کو اس کلاسک انداز میں مستنصر حسین تارڑ ہی بیان کر سکتے تھے ۔ لاہور آوارگی کی گیلری میں جہاں قاری کی ملاقات خالد اقبال ، سعید اختر ، غلام مصطفےٰ اور اقبال حسین جیسے مایہ ناز مصوروں سے ہوتی ہے وہیں اسے فان گوگ ،مائیکل اینجلو اور پکاسو کی ست رنگی پینٹنگز کے رنگ بکھرے بھی نظر آتے ہیں ۔
اپنی نوعیت کے حوالے سے یہ اردو ادب کی ایک منفرد کتاب ہے جو ایک طرف دل کو چھو لینے والا سفر نامہ بھی ہے ، گزر چکے زمانوں کی گمشدہ داستان اور ایک بھرپور پکچر گیلری بھی ۔ جہاں ہر منظر تصویری قید سے آزاد ہو کر پڑھنے والے کے ساتھ چل نکلنے پر بضد ہے اور حویلی بیج ناتھ کے طاقوں پر بیٹھی کبوتری اپنی سفید دم کی جھالر پھیلا کر کسی روسی بیلے رینا کی مانند رقص کرتی، غٹر غوں کرتی ،اس سے پوچھ رہی ہے کہ ‘ پھر کب آؤگے ‘۔