The news is by your side.

کونو کارپس: فائدہ مند یا نقصان دہ

کونو کارپس کا شمار دنیا کے ہر خطے میں کثرت سے پائے جانے والے نباتات میں ہوتا ہے۔ افریقہ سے ایشیا اور امریکہ سے پیسیفک اوشین تک ان کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جن میں جھاڑی دار اور درخت نما کونو کارپس قابل ذکر ہیں۔ پاکستان سمیت جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اس کی جو قسم بکثرت پائی جاتی ہے اسے کونو کارپس اریکٹس کہتے ہیں جو ہر موسم میں اگنے والا سدا بہار درخت ہے۔ اس کی شاخیں تقریباً 3 میٹر تک لمبی ہوتی ہیں جبکہ پتے بھی عام درخوں کے پتوں سے سائز میں بڑے اور لمبوترے ہوتے ہیں جو آبی بخارات کی صورت میں زیادہ پانی ماحول میں خارج کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

کونو کارپس کی جڑیں انتہائی مضبوط ہوتی ہیں اور زمین میں گہرائی تک پھیل کر جڑوں کا جال پھیلا لیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ پودے بہت تیزی سے پھیلتے ہیں اور مقامی پودے ان کے پھیلنے سے آہستہ آہستہ معدوم ہو جاتے ہیں۔ صوبۂ سندھ میں کثرت سے پائے جانے والے مینگروز بھی انہی کی ایک قسم ہیں جو 6 سے 7 میٹر طویل ہوتے ہیں اور لمبائی میں سیدھے پھیلے ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ساحل سمندر یا سمندر کے قریب کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ انتہائی نمکین پانی میں بھی اگ جاتے ہیں اور اس کی جڑیں 25 ہزار پی پی ایم تک نمکیات برداشت کر سکتی ہیں۔

دنیا کے مختلف خطوں میں گزشتہ چار دہائیوں سے کونو کارپس کو دیگر مقامی پودوں کے ساتھ شجر کاری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ بڑھتے ہوئے گلوبل درجہ حرارت اور آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔ ان ممالک میں کویت، یمن، نائجیریا، پاکستان اور متعدد امریکی ممالک بھی شامل ہیں۔ چونکہ یہ ہر طرح کے ماحول میں با آسانی اگ جاتا ہے اس لیے مشرق وسطیٰ سمیت متعدد ممالک میں سڑکوں، پارکوں اور تفریحی مقامات کو سر سبز و خوبصورت بنانے کے لیے کثرت سے لگایا جاتا ہے۔ یہ زیر زمین پانی کا لیول بڑھانے کے علاوہ پودوں کی موسمیاتی بیماریوں اور حشرات کے حملوں کے خلاف بھی شدید مزاحمت کرتے ہیں اور دوا سازی میں بھی ان کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے باوجود کونو کارپس ایک طویل عرصے سے تنازعات کی زد میں ہے اور پاکستان کے شہر کراچی سمیت متعدد ممالک میں ان کی شجر کاری اور خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اگرچہ اس وقت سندھ اور پنجاب کے متعدد علاقے گرمی کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہیں مگر کراچی میں گزشتہ برس کی نسبت مزید زیادہ درجہ حرارت ہونے کے باعث اس پرانی بحث نے ایک دفعہ پھر شدت اختیار کرلی ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی اور مون سون میں بارشوں کی قلت اور تبدیل شدہ پیٹرن کے ذمہ دار یہ کونو کارپس کے درخت ہیں جو اب کراچی کے ہر علاقے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مگر عام افراد ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور فی الوقت گرمی کے ستائے افراد ان کو اکھاڑ کر تصاویر با خوشی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہیں۔

اگرچہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں ان درختوں نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا بلکہ فی الوقت صرف کراچی یا پاکستان ہی نہیں دنیا کے مختلف خطے شدید گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ کونو کارپس بھی عام درختوں کی طرح ماحول دوست ہیں جو آکسیجن کی مسلسل سپلائی جاری رکھنے کا سبب بننے کے علاوہ سبزہ اور چھاؤں فراہم کرتے ہیں مگر ان کو لگانے کے لیے مخصوص مقامات کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ چونکہ ان کی جڑیں زمین کے اندر گہرائی میں اتر کر جال بچھا دیتی ہیں جو عموماً 15 سے 30 سینٹی میٹر یا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ گہرائی میں اتر جاتی ہیں اور انتہائی مضبوط ہونے کے باعث راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو توڑ دیتی ہیں اس لیے انہیں گنجان آباد علاقوں میں ہر گز نہیں لگانا چاہیئے۔ ماہرین ماحولیات و تعمیرات کے مطابق نہ صرف کراچی بلکہ کویت، یمن اور متعدد دوسرے ممالک میں بھی کونو کارپس کے یہ نقصانات سامنے آئے ہیں کہ ان کی جڑیں پانی کی تلاش میں گھروں اور عمارتوں کی بنیادوں میں گھس کر انہیں کمزور کرنے کے علاوہ زیر زمین پانی، ٹیلی فون اور سیوریج کی پائپ لائنز کو تباہ کرنے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ لیکن اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان پودوں کو بالکل ختم کردیا جائے۔

کراچی میں کونو کارپس سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ان کے بارے میں درست معلومات فراہم کی جائیں۔ انہیں صرف گنجان آباد علاقوں سے تلف کیا جائے اور اس کے لییے بھی مخصوص تکنیک استعمال کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی جڑیں زمین میں گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اس لیے انہیں گہرائی تک تلف کرنا ضروری ہے ورنہ یہ کچھ عرصے بعد خودرو پودوں کی طرح دوبارہ بھی اگ سکتے ہیں۔ان کو رہائشی علاقوں سے تلف کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تکنیک استعمال کرنا ضروری ہے۔

1۔ سب سے پہلے متعلقہ علاقے میں اگے درختوں کی عمر کے بارے میں درست معلومات ہونا انتہائی ضروری ہیں کیونکہ درخت جتنے پرانے ہوں ان کی جڑیں زمین میں اتنا ہی گہرا اور مضبوط سسٹم بنا چکی ہوں گی لہذا ان درختوں کو صرف اوپر سے کاٹ دینا کافی نہیں ہوگا۔

2۔ درخت کی عمر کے بعد اس کے سائز کو بھی مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے، جو درخت جتنا لمبا ہوگا اس کی جڑوں کا نیٹ ورک بھی اتنا ہی توانا ہوگا۔

3۔ زیادہ عمر کے لمبے درخت اگر رہائشی علاقے میں ہیں تو ان کو تلف کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جس کے لیے گہرائی تک کھودنے والے جدید آلات کی ضرورت ہوگی، اس کے علاوہ انجینئرز کھدائی کے وقت اس امر کو ملحوظ خاطر رکھیں گے کہ کھدائی کس طرح کرنی ہے جس سے آس پاس کی عمارتوں اور گھروں کی بنیادوں کو نقصان نہ پہنچے۔ بصورت دیگر مقامی آبادی کا اناڑی پن سے ان درختوں کو تلف کرنا کسی نئے ڈیزاسٹر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

اس کے علاوہ مستقبل میں ان کی شجر کاری یا خرید و فروخت پر بین لگانے کے بجائے آبادی و شہر سے دور ایسے مقامات کا انتخاب کیا جائے جہاں اگلے پانچ سے دس برسوں میں بھی رہائش کا کوئی منصوبہ زیر غور نہ ہو۔ ورنہ لا محالہ زمین میں سرایت کردہ ان کی جڑیں مستقبل میں بڑے مسائل کا سبب بن جائیں گی۔ پاکستان میں شجر کاری کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ عموماً حکومت یا مقامی این جی اوز کی جانب سے شجر کاری کی مہم تو شروع کردی جاتی ہے مگر اس کے لیے کوئی ماسٹر پلان تیار نہیں کیا جاتا اور ہر طرح کے پودوں کو بنا تحقیق کسی بھی علاقے میں لگا دیا جاتا ہے۔

شجر کاری چاہے گنجان آباد علاقوں میں کی جائے، سڑکوں کے کنارے ، ہائی ویز یا تفریحی مقامات پر، اس کے لیے درختوں کا انتخاب ایک خاص پلان بنا کر کرنا چاہیئے، عموماً کونو کارپس جیسے درخت مقامی درختوں پر حاوی ہو جاتے ہیں جس کے باعث ان پودوں کی سپیشیز متعلقہ علاقوں سے ختم ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی ایلین پلانٹ کو کسی نئے علاقے میں لگاتے وقت ایسی جگہ کا انتخاب کرنا ضروری ہے جہاں مقامی پودوں یا درخت زیادہ نہ ہوں ورنہ یہ ایلین پلانٹ انہیں نگلتے جائیں گے جو لا محالہ کراچی کی موجودہ صورتحال جیسے کسی ڈیزاسٹر کا سبب بنے گا۔

ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی درخت فالتو نہیں بنایا اور نہ ہی وہ مکمل طور پر نقصان دہ ہوتا ہے۔ اگر اس سے متعلق کوئی مضر اثرات سامنے آئے ہیں تو یقیناً ان کے لیے غلط ماحول اور نامناسب جگہ کا انتخاب کیا گیا ہوگا جس کے لیے اس پودے سے متعلق مکمل سائنسی معلومات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں کراچی میں شجر کاری کے لیے املتاس، نیم اور ایسے پودوں کا انتخاب مکمل تحقیقات کے ساتھ کیا جائے کہ وہ ماحول دوست ہونے کے ساتھ مقامی خودرو پودوں کو ختم کرنے کا سبب نہ بنیں، کیونکہ ماحول میں توازن کے لیے ہر طرح کے درخت ،جھاڑی یا پودے کا موجود ہونا ضروری ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں