The news is by your side.

کراچی میں شجر کاری کا شور- کچھ اہم باتیں جان لیں

دنیا بھر میں تیزی سے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت ، بارشوں کی کمی یا تبدیل شدہ پیٹرن اور پانی کی کمی کے باعث یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ آخر ان تبدیلیوں کا اصل سبب کون سی وجوہات ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک عوام با شعور رہیں اور وہ اس امر سے آگاہ ہیں کہ اس طرح کی فضول بحثوں میں پڑ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے ان عملی اقدامات پر توجہ دی جائے جن کے ذریعے کم از کم بڑھتے ہوئے گلوبل درجۂ حرارت پر قابو پایا جاسکے۔ پاکستان میں بھی اس وقت زیادہ تر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور رمضان میں طویل لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی میں کونو کارپس نامی درختوں کے منفی اثرات سامنے آ نے کے باعث ان درختوں کو تیزی سے کاٹ کر ان کی جگہ نئے درخت اور پودے اگا ئے جارہے ہیں ، جن میں کراچی کی مکین انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں ۔

مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی حکومت کی جانب سے نئی شجر کاری سے پہلے مکمل تحقیق کر کے ایک سٹر ٹیجی اور پلان جاری کیا جائے تاکہ مستقبل میں کو نو کارپس کی طرح کی کسی صورتحال سے بچا جاسکے۔ ماضی میں بغیر پلاننگ کے شروع کی گئی کئی شجر کاری کی مہمات کے بد ترین نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ رواں صدی کے اوائل میں دارالحکومت اسلام آباد میں ملبری کے پودے کثرت سے لگائے گئے تھے جو بعد میں پولن کی ز یادتی اور دمے کے امراض کا باعث بنے۔

لہذاٰ کراچی جیسے گنجان آبادی والے کسی بھی شہر میں شجر کاری کی مہم شروع کرنے سے پہلے مندر جہ ذیل نکات کو مد ِ نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

1۔ کسی بھی علا قے میں کسی مخصوص اسپی شیز (نوع) کا پودا 10 فیصد سے زیادہ نہیں لگانا چاہیئے۔ عموماً نوٹ کیا گیا ہے کہ پودوں کی مخصوص بیماریاں یا حشرات خاص نسل کے پودوں پر ہی حملہ آور ہوتے ہیں ۔ لہذاٰ دس فیصد کا اصول استعمال کرتے ہوئے ان بیماریوں اور حشرات کے حملے سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ اگر اس علاقے میں دیگر نسل کے پودے بھی مناسب مقدار میں اگائے گئے ہوں تو ایک نسل کے پودے خراب ہونے سے وہاں سبزہ بالکل معدوم نہیں ہوگا جس کی موجودگی کے باعث وہاں کی آب و ہوا یا ماحول پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ کیونکہ سبزے کی کمی سے آکسیجن کی قلت ہوجاتی ہے اور ریسپائریشن کا عمل بھی رک جاتا ہے جو ہوا میں نمی برقرار رکھنے کے لیئے لازمی ہے۔

2۔ گنجان آبادی والے علا قوں میں پودوں کی کوئی خاص جنس ( جین) 20 فیصد سے زیادہ نہیں لگا نی چاہیئے اور نہ ہی کسی خاص فیملی کے پودے یا درخت 30 فیصد سے زیادہ لگائے جانے چاہیئں ۔ اس تناسب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر مکمل تحقیق کے ساتھ ماحول کے لیئے موزوں نباتات یا انتخاب کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ ناصرف بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کو کسی حد تک روکا جاسکے بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی لگام ڈالی جا سکتی ہے۔

3۔ شجر کاری سے پہلے منتخب کردہ پودوں کو اگر چھوٹے پیمانے پر کسی فارم ہاؤس میں اگا کر کچھ عر صے ان پر مکمل تحقیق کرلی جائے تو مستقبل میں پیچیدہ صورتحال سے بچا جاسکتا ہے۔ ریسرچ اور پلاننگ کے ساتھ شجر کاری کرنے سے ناصرف پودوں کی وبائی امراض کو پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے بلکہ بعد میں حشرات یا کیڑے مکوڑوں کے حملے کے وقت ان کو تلف کرنے میں بھی آسانی رہتی ہے اور ادویات کے سپرے سے آبادی کے متاثر ہونے کے خدشے پر بھی کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی علاقے میں ایلینز پلانٹس لگانے سے بعد میں جو نقصانات سامنے آتے ہیں ان کے سد ِ باب کے لیے بھی کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے ۔ لہذا ٰ کہیں بہتر ہے کہ اس رقم کا بہت تھوڑا سا حصہ شجر کاری سے قبل تحقیق کرنے پر صرف کر دیا جائے۔

4۔ پاکستان میں اس حوالے سے زیادہ آگاہی نہیں پائی جاتی کہ دیہاتی علاقوں میں کئی نسلوں سے ایک ہی طرح کی فصلیں ا گائی جارہی ہیں اور زیادہ تر ناخواندہ کسان دنیا بھر میں ہونے والی جدید پیش رفت اور جینیٹک ریسرچ سے آگاہ نہیں ہیں ۔ جدید تحقیق کے مطابق کلوننگ اور میچنگ کی تکنیکس کے ذر یعے ایسی نئی اسپی شیز بنائی جا سکتی ہیں جو حشرات یا فصلوں کی موسمیاتی بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحمت پیش کرتی ہیں ۔ اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے مقامی پودوں کی ایسی نئی نوع تیار کی جاسکتی ہیں جو ان علاقوں میں اگائے جانے کے لیے نہایت موزوں ہوں ۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ دیگر پودے بھی 20 سے 30 فیصد کی تعداد میں لگانے چاہیں۔

ان تفصیلات کے بعد اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔ کراچی میں گزشتہ دو دہائیوں میں کئی دفعہ شجر کاری کی مہم چلائی جاتی رہی ہیں ۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کا مقصد شہر میں سبزہ اور خوبصورتی پیدا کرنا تھا۔ لہذاتحقیق کے بغیر مختلف علاقوں میں ہر طرح کے پودے لگائے جاتے رہے جس کا خمیازہ بڑے مالی اور انفرا سٹرکچر کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اور مقامی خورد رو پودے بھی معدوم ہوتے گئے جو ماحول میں توازن بر قرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ ماہرین ِ نبا تات( بو ٹا نسٹ) کے مطابق کراچی کی آب و ہوا کو مد ِنظر رکھا جائے تو شیشم اور کھجور کے پودے اس کے لیے بالکل موزوں نہیں ہیں ۔۔ اسی طرح چیکو ، شریفہ اور کوکونٹ ان علاقوں میں کاشت کیئے جاتے ہیں جہاں بارش کثرت سے ہوتی ہے۔ یہ عموما ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں مگر کراچی کے سا حل پر اب مون سون کے سیزن میں بھی زیادہ بارش نہیں ہوتی لہذا یہ پودے بھی موزوں نہیں ہیں۔سنہ2017 کے دوران کراچی میں 20 ملین پودے لگائے گئے تھے جن میں کچنار ، گلِ نشتر ، جنگلی بادام ، املی ،املتاس اور سائرس شامل تھے ۔

ماہرین کے مطابق کراچی کے لیے سب سے زیادہ موزوں لیگنم اور نیم کے پودے ہیں ۔ تقریبا 20 سے 25 سال قبل یہاں بڑی تعداد میں لیگنم کے پودے لگائے گئے تھے ، چونکہ یہ کافی سست رفتاری سے بڑھتے ہیں اور لمبائی کے بجائے ان کی شاخیں چوڑائی میں پھیلتی ہیں اس لیئے یہ اتنے سال بعد بھی بجلی کی تاروں اور کھمبوں تک نہیں پہنچ سکے۔ ان کی جڑیں بھی زیادہ گہرائی میں نہیں جاتیں اس لیے کونو کارپس کی طرح زیر ِ زمین پائپ لائنز کو بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس پودے کے پھول ابتدا میں سفید اور کھلنے کے بعد جامنی ہو جاتے ہیں ،اسی طرح ان کے پھل ابتدا میں سبز اور پھر اورنج ہوتے ہیں جو دیکھنے والوں کو ایک خوشگوار منظر پیش کرتے ہیں ۔اگرچہ ماضی بعید میں لیگنم کو مغربی بھارت سےدرآمد کیا گیا تھا مگر اب یہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور مقامی زبان میں انھیں روحیدہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ خشک سال کے خلاف مزا حمت کرتے ہیں اور کم پانی پر بھی با آسانی اگ جاتے ہیں ۔ لہذا نئی شجر کاری کے لیے اورنج رنگ کے پھولوں والے یہ لیگنم کے پودے اور نیم بہترین انتخاب ہیں ۔ جبکہ یو کلپٹس اور کونو کارپس کو بہت دیکھ بھال کر آبادی سے دور ایسے علاقوں میں لگایا جائے جہاں ان کی جڑیں زیر ِ زمین جال پھیلا کر انفرا سٹرکچر کی تباہی کا سبب نہ بنیں ۔

اس کے علاوہ میڈیا کے ذریعے عوام میں شجر کاری کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔کہ کون سا موسم پودوں کی بوائی کے لیے اہم ہے اور کس موسم میں کون سے پودے اگانے چاہیں ۔ اگرچہ دنیا بھر میں شجر کاری کا آغاز موسم ِ بہار سے کیا جاتا ہے مگر موسمی تغیرات اور گلوبل وارمنگ کی بدولت اب کسی بھی وقت کوئی غیر معمولی واقع رو نما ہو جانا بعید از قیاس نہیں رہا ۔ کہیں بہار میں برفانی طوفان آ رہے ہیں تو کہیں موسم ِ گرما میں سمندری طوفانوں نے تباہیاں پھیلائی ہوئیں ہیں ۔ لہذا نباتات بھی ان تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔

کراچی میں اب مارچ سے ہی شدید گرمی معمول بن گئی ہے لہذا موسم بہار بھی جنوری کے اوائل میں ہی شروع ہوجاتا ہے اس لیے پھول دار درخت جنوری میں اگائے جائیں اور مقامی پھل اور سبزیاں اپریل میں بونی چاہیں ۔ درخت لگانے کے بعد ان کی مناسب دیکھ بھال بھی انتہائی ضروری ہے ۔ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ پانی فراہم کرنے سے نوزائیدہ پودوں کی جڑیں متاثر ہو جاتی ہیں جس کے باعث وہ زیادہ تیزی سے نہیں بڑھتے یا موسمی اثرات کے باعث کچھ ہی عرصے میں جل جاتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ آبیاری ایک ٹائم ٹیبل سے اور پانی کی مقررہ مقدار کے مطابق کی جائے۔

کراچی میں اس وقت کئی علاقوں میں کونوکارپس کاٹ کر نئے درخت لگائے جارہے ہیں ،لہذا عوام تک یہ معلومات پہنچانا ضروری ہے کہ شدید گرمی کے موسم میں لیگنم اور نیم کے ایسے پودے لگائے جائیں جو موسمی اثرات کو با آسانی برداشت کر سکیں اور جلد جل کر معدوم نہ ہوجائیں ۔ کونوکارپس کو بھی صرف ایسے گنجان آ باد علاقوں سے تلف کیا جائے جہاں ان کی جڑیں زمین میں گہرائی تک اتر کر انفرا سٹرکچر کو تباہ کر رہی ہیں، بصورت دیگر یہ درخت آکسیجن پیدا کرنے اور بارشیں برسانے میں معاونت کا کام بھرپور انجام دے رہے ہیں سو اگر ضرورت نہ ہوتو انہیں نہ اکھاڑا جائے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں