The news is by your side.

کیرالہ میں سیلاب نے انسانوں کو کیا واپس لوٹایا؟

گذشتہ ماہ جولائی کے آخری ہفتے میں بھارت کی ریاست کیرالہ کو شدید مون سون کی بارشوں کے بعد سیلاب کا سامنا رہا مگر 8 اگست 2018 کی رات کو شروع ہونے والی بارشوں نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ، اعداد و شمار کے مطابق صرف 24 گھنٹوں میں 310 ملی لیٹر بارش ریکارڈ کی گئی جس کے باعث ریاست کے ڈیمز بھر گئے اور سیلاب نے ہر جانب تباہی پھیلا دی ۔جسے کئی حوالوں سے بھارت میں آنے والے اب تک کے بدترین سیلابوں میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے ۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق اس سے 445 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 15 افراد اب تک لاپتہ ہیں ۔

یہ بارشیں اس قدر شدید تھیں کہ محض ایک رات میں تقریبا ََ 2 لاکھ 80 ہزار سے زا ئد افراد کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کیا گیا اور ریاست کی تمام ڈسٹرکٹس میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا گیا ۔کیرالہ کی حکومت کے مطابق ان شدید بارشوں اور سیلاب سے یہاں کی کل آبادی کا تین چوتھائی حصہ متاثر ہوا ہے ۔ اگرچہ صورتحال کو بروقت بھانپتے ہوئے حکومت نے فوری اقدامات کیے تھے اورر یاست کے 42 میں سے 35 ڈیمز فورا ََ ہی کھول دیئے گئے تھے جبکہ یہاں کے سب سے بڑے لڈکی ڈیم کے بھر جانے کے باعث اس کے سپل وے بھی گذشتہ 26 سال میں پہلی دفعہ کھولے گئے ۔ ماہرین کے مطابق ان شدید مون سون کی بارشوں اور تباہ کن سیلاب سے جو علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں انھیں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے حساس علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جہاں ماہرین کی جانب سے بنائی گئی ماحولیاتی پالیسیوں اور اصلاحات نافذ کرنے کی جانب بالکل توجہ نہیں دی جاتی ۔ اگرچہ ان اچانک اور شدید بارشوں میں بنیادی کردار بڑھتے ہوئے عالمی درجۂ حرارت اور ایل نینو کے اثرات نے ادا کیا ہے جس کے باعث بحیرۂ عرب سے آنے والی مون سون کی ہواؤں میں اتار چڑھاؤ بڑھ جاتا ہے اور کچھ علاقوں میں ان کے باعث شدید ترین بارشیں ہوتی ہیں تو دیگر علاقوں میں یہ بہت کم برستی ہیں یا پھر بالکل ہی بارش نہیں ہوتی۔

بہرحال با رشیں برس چکیں اور سیلاب کا پانی بھی اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی نئی داستانیں رقم کر کے اب اتر چکا ہے ۔ مگر یہ اپنے پیچھے کئی سوالیہ نشان ضرور چھوڑ گیا ہے۔ سب سے زیادہ بدترین صورتحال جو سیلابی پانی اترنے کے بعد مشاہدہ کی گئی وہ کیرالہ کے دریائی پلوں کے آس پاس کے علاقوں کی تھی جہاں گذشتہ 4 سے 6 سال میں پلاسٹک اور کچرے کی صورت میں جو کچھ انتہائی غیر ذمہ داری سے دریا برد کیا گیا تھا وہ سب سیلاب کے بعد دریا اگل گئے ہیں اور اب آس پاس کے علاقے پلاسٹک کی اشیاء اور کچرے کے ڈھیروں کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔

یہ صرف حکومت یا ذمہ دار افراد ہی کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہے بلکہ یہ عام شہری کے لیے بھی قدرت کا ایک الارم ہے کہ اگر آپ اپنے سیارۂ زمین اور اس پر دستیاب قدرتی نعمتوں جیسے سمندر، دریا ،جھلیں ، کھلی فضا ، پہاڑ، حیوانات و نباتات اور سب سے بڑھ کر اس کرۂ ارض کے قدرتی نظام کی قدر اور حفاظت نہیں کریں گے تو یاد رکھئے قدرت بھی بہت جلد آپ سے یہ تمام مہربانیاں ایک ایک کر کے واپس لے لے گی ۔ یہ زمین انسان کے بغیر بھی قائم رہ سکتی ہے مگر اس سیارے کے علاوہ کوئی اور مسکن ٹیکنالوجی کی انتہا ء پر پہنچ کر بھی انسان اب تک ڈھونڈ نہیں سکا ۔

آج کرۂ ارض کا ہر خطہ انسانی سر گرمیوں کی بدولت جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہے ۔ کہیں سمندر وں کی گہرائیوں میں پلاسٹک اور کچرے کے مینار بن رہے ہیں جن کے باعث بے ضرر سمندری مخلوق آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب دریا اور جھیلیں بھی نوحہ کناں ہیں ۔ گلوبل وارمنگ کی بدولت نا صرف دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی سطح گرتی جا رہی ہے بلکہ بڑھتی ہوئی آبی آلودگی کی وجہ سے یہ اپنا اصل حسن بھی کھو رہے ہیں ۔ شاید اسی کا انتقام لیتے ہوئے کیرالہ کے دریا وہ سب کچھ باہر اگل گئے ہیں جو برسوں سے دریا برد کیا جارہا تھا اور ان کی بد صورتی کا سبب تھا ۔کیرالہ جیسی صورتحال پاکستان میں بھی رونما ہوسکتی ہے بلکہ میرے خیال میں یہاں بعد کی صورتحال کہیں زیادہ کشیدہ اور گھمبیر ہوگی۔ پاکستان کو گزشتہ 4، 5 سال سے بارشوں کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اس برس بھی توقع کے بر خلاف مون سون بارشیں معمول سے بہت کم برسی ہیں ۔ اس وجہ سے پنجاب اور سندھ کے دریا تقریبا ََ خشک ہو چکے ہیں اور دریا کے ڈیلٹا پر باقاعدہ بستیاں آباد ہوچکی ہیں ۔ اگرچہ اس کے لیے پاکستان میں کبھی مناسب سروے نہیں کیا جاتا اور اگر کبھی این جی او یا بین الاقوامی تنظیمیں اس پر اعدادو شمار جمع کرتی بھی ہیں تو کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی جاتی ۔ فرض کیجئے کہ اگر کسی رات کیرالہ جیسی یا اس سے بھی شدید بارشیں پنجاب یا سندھ کے د یہی علاقوں میں برس گئیں تو ہمارے پاس کوئی ایسا مناسب پلان اور پالیسی موجود نہیں ہے جس کے ذریعے دریاؤں کے ڈیلٹا پر آباد افراد کو سیلابی پانی سے بروقت نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں مسلسل رہائش سے جو آلودگی پھیل چکی ہے وہ سیلاب کے بعد بہت سے نئے المیوں کو جنم دینے کا سبب بنے گی اور شاید اتنی ہلاکتیں سیلاب سے نہ ہوں جتنی سیلابی پانی کے مہینوں میں اترنے اور ان کے باعث پھوٹنے والے وبائی امراض کی بدولت ہوں ۔

اگرچہ بھارت میں ابھی تک سیلاب کے بعد وبائی امراض پھوٹ پڑنے کی بازگشت سنائی نہیں دی اس کے باوجود ریاست کی حکومت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہےکہ انھیں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیئے تقریبا ََ 2600 کروڑ بھارتی روپے کی ضرورت ہے جبکہ مرکزی حکومت محض 600 کروڑ فراہم کر سکتی ہے لہذا موجودہ صورتحال میں بین الاقوامی امداد لینا ناگزیر ہے ۔ مگر مودی حکومت کسی بھی قسم کی امداد لینے سے انکاری ہے کیونکہ بھارت کی بین الاقوامی امداد لینے کے حوالے سے ایک واضح پالیسی موجود ہے اور وہ عموما ًقدرتی آفات میں بھی امداد لینے سے گریز کرتے ہیں ۔ جبکہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کی نہ تو کوئی مؤثر پالیسی اور سٹرٹیجی موجود ہے اور نہ ہی بین الاقوامی امداد کے حوالے سے ہم کوئی واضح نقطۂ نظر رکھتے ہیں ۔ ماضی میں پنجاب ، سندھ اور سرحد میں آنے والے بدترین سیلاب سے نمٹنے کے لیے حکومتوں نے فورا ہی امداد کی درخواست کردی تھی ۔ مگر اس میں بھی بڑے پیمانے پر خرد برد کی گئی اور اب ترقی یافتہ ممالک پاکستان کو ایسی صورتحال میں مالی امداد دینے سے کتراتے ہیں ۔

پاکستان ہو یا بھارت یا کوئی بھی اور ملک گذشتہ چند دہائیوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ماحولیاتی تبدلیوں کی وجہ سے اب کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کوئی ناگہانی ہو نا ، انوکھی بات نہیں رہی ۔ لہذا ٰ ضروری ہے کہ حکومتیں اس حوالے سے مؤثر پالیسی اور سٹرٹیجی بنائیں اور عوام میں بھی اس کے لیئے شعور اجاگر کیا جائے کہ اگر آپ قدرت کی از خود حفاظت نہیں کریں گے تو یہ بھی زیادہ عرصے تک آپ پر مہربان نہیں رہے گی ۔ کیرالہ کے دریا آس پاس کے علاقہ مکین کو قدرت کا یہی پیغام دے گئے ہیں کہ

دنیا نے پلاسٹک اور کچرے کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں