معاشرے افراد سے بنتے ہیں ، معاشرے کی ترقی و تنزلی بغیر فرد کے ممکن ہی نہیں۔ دنیا کی ان قوموں نے ترقی کی منزلیں بہت تیزی سے طے کیں جنہوں نے نا صرف قومی معیار مرتب دئیے بلکہ ان پر بھرپور طریقے سے عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا ۔ قوم کا ہر فرد جب تک اپنی قومی ذمہ داری کو نہیں سمجھے گا اس وقت تک نا قوم تشکیل کے عمل میں آئے گی اور نا وہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ ہم دنیا کی بات نہیں کرتے اپنے ارد گرد کے کچھ ممالک بنگلا دیش، جاپان اور سب سے بڑھ کر چین کو لے لیتے ہیں جنہوں نے ناصرف ترقی کی منزلیں طے کر کے دیکھائی ہیں بلکہ دنیا کو اپنی ضرورت کا محتاج بنا لیا ہے۔ اس بات تذکرہ بارہا اپنے مضامین میں کر چکا ہوں کہ جس زبان میں سوچیں گے اگر اسی زبان کو اپنی سوچوں کی تشہیر کا ذریعہ بنائینگے تو جذبات کی صحیح عکاسی ممکن ہوسکے گی چاہے آپ دیگر زبانوں پر کتنا ہی اچھاعبور رکھتے ہوں۔
کسی فرد کا آستینوں کا اوپر کی جانب چڑھا کر رکھنا اس کے کام میں مصروفیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے کبھی کسی اعلی منصب پر فائز افسر یا وزیر کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا،سوائے محنت پر کمر بستہ افراد کو جو اپنے کام کو عباد ت کے درجے پر رکھتے ہوئے رزق حلال عین عبادت سمجھتے ہیں ۔ معیار اپنی معاشرتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے مرتب کئے جاتے ہیں ناکہ کسی اور کے معاشرے میں نافذ کئے گئے میعار کی نقل اپنے معاشرے میں نافذ کردی جاتی ہے۔آسان لفظوں میں کہتے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا، ہم تو وہ ہیں جو کہ نا تو اپنی چال بھول رہے ہیں اور نا ہی صحیح طرح سے ہنس کی چال چل پا رہے ہیں۔ ہم نے یہ سمجھ کر کہ شائد اسلامی اقدار قدیم روایات پر مبنی ہیں جبکہ نئے دور کہ تقازے کچھ اور ہیں جوکہ یکسر غلط ہے کیونکہ اسلام اور اسلامی نظام رہتی دنیا تک کیلئے ہے، نئے دور سے ہم آہنگی کیلئے ہم نے جو نام نہاد میعار مرتب کئے ہیں وہ سراسر ہماری اقدار سے مختلف ہیں۔ سب سے بڑھ کر ان خصوصیات کا تعلق جسمانی ہے یہ روح تک رسائی حاصل کر ہی نہیں سکتے جس کے باعث انکی حیثیت عبوری ہی رہے گی اور عبوری چیزوں کو آپ دائمی مصرف کیلئے استعمال نہیں کر سکتے ۔ گرد آلود اسلاف کی قدریں ہمیں پکار رہی ہیں ۔
اگر ہم خاص بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اعلی معیار قائم کرنا ہونگے، ہمیں بھیڑ چال چلنے سے گریز کرنا ہوگا ، ہمیں منزل پر پہنچنے کیلئے کسی اور کے بنائے ہوئے راستوں پر چلنے کی بجائے خود راستوں کا تعین کرنا ہوگا۔ منزل پر تب ہی پہنچ سکتے ہیں جب راستے خود متعین کئے ہوں ورنہ دوسرے کے راستوں پر چل کر تو بھٹکتے رہیں گے جیسے کہ پچھلے ۷۰ (ستر) سالوں سے بھٹک رہے ہیں۔
بارہا اپنے مضامین میں اس بات کا تذکرہ کرتے رہے ہیں کہ اگر سوچنے اور بولنے کی زبان ایک ہو تو جذبات کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے۔انگریزی بین الاقوامی زبان ہے جس کا استعمال ہر بین الاقوامی فورم پر کیا جاتا ہے اور جو آپ کی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے بھی ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک اپنے مسائل کیساتھ دنیا کے مشترکہ مسائل پر بھی بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ۷۳ سالانہ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بہتر کیا کوئی اور کرسکتا تھا۔ اولیاؤ ں کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ، شاہ صاحب جاذب نظر شخصیت کیساتھ ساتھ خوش الہان بھی ہیں اور بھرپور زور خطابت بھی قدرت نے عطاء کیاہے ۔
آپ انگریزی زبان بہت اچھی جانتے ہیں تو دوسری جانب آپ کو قومی زبان پر عبور حاصل ہے ، آپکی گفتگو سے ادب فہمی کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان تمام خصوصیات کے حامل شاہ صاحب کا شمار پاکستان کے بہترین خارجہ امور پر دسترس رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد میں سے ایک ہیں۔ شاہ صاحب نے پاکستان کی بھرپور ترجمانی کی اور بہت خوبصورتی سے دنیا کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی اور ان سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، موسمی تغیرات کے حوالے سے بھی بات کی اور دنیا کو اپنے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا ، دنیا کو یہ بات بھی باور کروائی کہ پاکستان نے دہشت گردی کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں (یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے)اور اسکے بدلے میں امریکہ کا غیر سنجیدہ رویے پر بھی دنیا کی توجہ دلائی۔
دنیا کے سامنے اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طویل ستم ظریفی کی داستانیں پیش کیں، دنیا کی بدقسمتی کہ وہ شاہ صاحب کی شعلہ بیانی کومن و عن سمجھنے سے قاصر رہی ، انہیں مترجم نے انگریزی زبان میں بھارتی جرائم کی داستان سننی پڑی۔یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ وزیر خارجہ صاحب دو ٹوک لفظوں میں دشمن کو سمجھانے کیلئے اس کی سمجھ آنے والی زبان میں بتانا چاہتے ہوں کہ پاکستان کی حکومت اب کس مزاج میں ان سے بات کریگی۔ بھارت کا سارا ڈرامہ اپنے اندرونی خلفشار سے دنیا کا دھیان ہٹانے کیلئے ہے ۔ دنیا کو بھارت کی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی نہیں دیکھائی دے رہی۔ یہ بھی دنیا پر واضح کیا کہ ہم دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور بھارت پاکستان میں اپنے ملک سے دہشت گردوں کو بھیج کر ہمارے معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلتا رہتا ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے دنیا کو درپیش مسائل پر پاکستان کا بھرپور موقف واضح کیا۔ افسردہ شام کا ذکر بھی کیا ۔
دراصل مضمون ہذا نا تو شاہ صاحب کی شخصیت پر لکھا جا رہا ہے اور ناہی انکی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کی جانے والی تقریر پر ہے ، مضمون کا اصل مقصد شاہ محمود قریشی صاحب کاشکریہ ادا کرنے کا ہے کہ انہوں نے دنیا کو پر یہ بات واضح کردی ہے کہ پاکستان میں اب پاکستانی حکومت آچکی ہے جوکہ پاکستان کو دنیا میں اسکا مقام دلا کر ہی چین سے بیٹھے گی۔ اب مانگے کی اقدار، قومی اقدار سے تبدیل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ بس شاہ صاحب کے مشیروں سے ایک چوک ہوگئی کہ وہ انہیں شلوار قمیض یعنی قومی لباس زیب تن کرنے کا بھی مشورہ دیتے تو یقیناًدنیا کو ایک یادگار دھچکا لگتا جس سے دنیا کے تمام مبصرین کو پیغام پہنچ جاتا کہ پاکستان اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے جا رہا ہے۔
قومی زبان کو شرمندگی سے نجات دلانے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ شاہ صاحب سے اجلاس کے اختتام پر کسی صحافی نے سوال کیا کہ آپ تو بہت اچھی انگریزی جانتے ہیں پھر تقریر اردو میں کیوں کی جس پر شاہ صاحب نے جواب دیا کہ میں دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان گونگا نہیں ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کے توسط ، دنیا نے پاکستان کی قومی زبان میں پاکستانیوں کے احساسات و جذبات کی زبان سنی اور قابل ذکر بات یہ کہ اب وہ باتیں جو پاکستان کی اکثریت کی مترجم کی زبانی سنا کرتے تھے اب ملاوٹ سے محفوظ براہ راست سنیں گے۔ ایک بات یاد رکھئے گا آپ کی ساری قابلیت آپ کی حب الوطنی پر غالب نہیں آنی چاہئے۔