پاکستان کی نئی حکومت تمام تر دعوؤں، وعدوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ مکمل طور پر اقتدار پراپنی گرفت مضبوط بنا چکی ہے۔ ماضی کی حکمران جماعت تمام تر نعروں، واویلا اور کھینچا تانی کے بعد اس وقت اپوزیشن کی سیٹ سنبھال چکی ہے۔ تمام تر اُمیدوں، توقعات اور آس عوام پاکستان تحریک انصاف کی نئی قائم ہونے والی حکومت سے باندھ چکی ہے( یہ الگ بات کہ اس وقت تک نئی حکومت عوام کو پری پید میٹر کی شنید، پٹرول و بجلی کے نرخ میں اضافہ، اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتوں، عالمی معاملات میں جلد بازی کے سوا کچھ نہیں دے پائی، مگر امید بہر حال ہے کہ وہ اپنی روش بدلیں تا کہ پاکستان ترقی کی راہ پکڑے)۔ سوائے سندھ کے پاکستان تحریک انصاف کی تین صوبوں میں حکومت کے ساتھ وفاق میں انتظام و انصرام پہ بلا شرکت و غیرے حاکمیت ہے(بلوچستان میں اقتدار کی شراکت داری، وفاق میں اتحاد کا فارمولہ ہونے کے باجود پوزیشن مضبوط ہے)۔
اس تمام صورت حال میں پاکستان عالمی تنازعات، مسائل، مشکلات اور ریشہ دوانیوں میں کہاں کھڑا ہے، کیسے سامنا کر رہا ہے ، کس طرح اپنا وقار بڑھا رہا ہے ، یہ سامنے آنا شروع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اعشاریے بھی سامنے آ رہے ہیں جس پہ نہ صرف خارجہ پالیسی بنانے والوں کو غور کرنا ہو گا بلکہ حفظ ماتقدم کے طور پہ دور اندیشی پہ مبنی فیصلے بھی کرنا ہوں گے۔
امریکہ ، بھارت ، اسرائیل گٹھ جوڑ اب ایک ایسا راز بن چکا ہے جو اب زباں زدِ عام ہے۔ مائیک پومپیو کا دورہ یقینا حوصلہ افزاءرہا لیکن ابتدائی غلط فہمیوں اور امریکی واضح وضاحت کے بعد اس دورے سے امیدیں باندھنا چوہدری خیال کے انڈوں کی ٹوکری سے پولٹری فارم بنا لینے جیسا ہی تھا اور ایسا ہی ہوا کہ بھارت سے جا جپھیاں ڈالیں اور ہم کو گھوریاں ڈالنے پہ اکتفا کیا گیا۔ بھارت نے مذاکرات سے انکار کیوں کیا، اس بحث سے قطع نظر غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت نہ صرف مذاکرت سے بھاگ رہا ہے بلکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی اچانک تیزی آ گئی ہے۔ شاید وہ نئی حکومت کا رویہ دیکھنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا اور عالمی اداروں میں تعینات پاکستانی سفراءحضرات کو نئی حکومت کس طرح استعمال کرتی ہے ، ایک غور طلب بات ہو گی۔
کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں کس طرح پاکستان لڑے گا آئندہ چند دن میں واضح ہو جائے گا۔ ہم بے شک سوشل میڈیا پہ مذاق اُڑائیں بھارتی آرمی چیف کی ٹیڑھی کیپ کا ، لیکن کوئی شک نہیں کہ ایک نہایت اہم عہدے پر موجود شخصیت کا بیان، اور اس پہ کوئی حکومتی باز پرس یا وضاحت نہ آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیان پوری بھارتی قیادت کی جانب سے ایک ’ٹیسٹر‘ کہ دیکھا جائے ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ ٹیبل ٹاک کا عزم اپنی جگہ اہم لیکن ہم عالمی سطح پر کس طرح اپنی بات میں اہمیت پیدا کریں گے اس پورے معاملے میں ، اہم سوال ہے۔امریکہ کیا ہم پوری دنیا میں اپنا وزیر خارجہ ٹرین میں گھما لائیں فرق نہیں پڑئے گا، فکر طلب مگر یہ ہو گا کہ ہماری بات سنی کیسے گئی۔
سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت یقینا اہم ہے۔ سی پیک’ٹپ آف آئس برگ‘ ہے چین کے عالمی معاشیاتی پنجرے کی جس میں وہ پوری دنیا کو جکڑنا چاہتا ہے۔ بے شک تمام ممالک کا فائدہ بھی ہے لیکن اجارہ داری یقینا چین کی قائم ہونے جا رہی ہے۔ سعودی عرب کی اس میں شمولیت پہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا؟ عوامی جائزوں کو مدنظر رکھا گیا؟ چین کے ساتھ اس حوالے سے جو معاملات زیر بحث لائے گئے وہ عوام جان سکتے ہیں یا نہیں؟ چین کا اس معاملے میں ردعمل کیا تھا؟ چین نئے فریق کی شمولیت کو کیسے دیکھ رہا ہے؟ تمام سوالات اہم ہیں ، مگر جواب مل نہیں پا رہے۔ وقت پہ چھوڑنے کے بجائے اس فیصلے کے مثبت پہلوؤں اور مضمرات دونوں پہ بحث لازم ہے۔
ایران میں فوجی پریڈ پہ حملے میں ہلاکتیں ہونے کے بعد نئی حکومت کے لیے اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ایران نے اس کا الزام براہ راست امریکہ و اسرائیل پہ لگاتے ہوئے بدلہ لینے تک کا اعلان بھی کیا ہے۔ یعنی مستقبل قریب میں منظر نامہ عالمی سطح پہ بھی اور خطے میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارا کیا موقف ہو گا یا ہے، اس پہ واضح سمت سامنے آنا باقی ہے۔ قطر کے ساتھ خلیجی ریاستوں کی مخاصمت میں ہم کہا ںکھڑے ہیں یہ اس لیے اہم ہے کہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد تاثر پھیلنا شروع ہو گیا کہ شاید ہم فریق بنتے جا رہے ہیں، ثالث بننا ہے تو تمام فریقین کو سب سے پہلے برابری پہ رکھیے۔
ایران و سعودی عرب کے ساتھ بناءفریق بنے تعلقات، یمن سعودی عرب تنازعے میں کردار، قطر و خلیجی ریاستوں کی مخاصمت، سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت، امریکی سخت رویے ، امریکہ میں تعینات ناتجربہ کار سفیر امریکہ کا موجود رہنا، عالمی عدالت انصاف میں شنوائی،سمیت بہت سے عالمی تنازعات، معاملات، مسائل میں نئی حکومت فی الحال کوئی واضح موقف نہ اپنا سکی ہے نہ اس بارے میں پالیسی بنتی نظر آ رہی ہے۔ سیاسی حکومت سیاسی فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ۔ جتنا جلد عالمی سطح پہ فیصلے ہوں گے اتنا ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔ فیصلہ سازی میں جتنا وقت صرف ہو گا عالمی دنیا میں اپنا مثبت تشخص اجاگر کرنے میں اُتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑئے گا۔