پاکستان کا ایک المیہ رہا ہے اور آج بھی ہے کہ اس دھرتی سے زیادہ مقدم ملک سے اہم شخصیات رہی ہیں اور شخصیات پہ حرف آیا نہیں اور ملک کے رہنے یا نہ رہنے کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ جناب آپ کے اجداد نے اگر ملک کے لیے جہدو جہد کی تھی تو اس لیے نہیں کی تھی کہ آپ اس ملک کے مختار کل بن جائیں کہ جو چاہیں آپ فیصلہ کریں وہی قانون بن جائے۔
ankara escort
çankaya escort
eryaman escort
etlik escort
ankara ucuz escort
balgat escort
beşevler escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort
gaziosmanpaşa escort
keçiören escort
kızılay escort
maltepe escort
mamak escort
otele gelen escort
rus escort
sincan escort
tunalı escort
türbanlı escort
ulus escort
yenimahalle escort
اس ملک کی بنیادوں میں تو ایسے گمنام شہیدوں کا لہو بھی شامل ہے کہ جن کے لاشے بھی شاید مٹی میں ایسے دب گئے کہ زمین بھی ہموار ہو گئی اور اس زمین پہ آج کوئی اکڑ کے اس ملک کے خلاف بات کرتے ہوئے جب چلتا ہے تو شاید اسی زمین کے نیچے وہ لاشہ تڑپ جاتا ہو گا۔ اور اس ملک کی آبیاری ان ماؤں، بہنوں نے اپنی عزتیں لٹا کر کی ہے جن کے ناموں سے بھی آج کی نسل واقف نہ ہو گی۔ اور ان میں سے کتنی ہی ایسی تھیں جو ایسے گمنام کنوؤں میں کود گئیں کہ جن کے میٹھے پانی آج کی نسل پیتے ہوئے اس ملک کی عزت و تکریم پہ ہرزہ سرائی کرتی ہے۔
پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر ہوتا تو یقینی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ یہ تو فلاں کے باپ دادا کی جاگیر ہے جو چاہیں کہیں اس کو۔ لیکن اگر اس پاکستان کے معمار ہی وہ ہیں جنہوں نے ایسے اس ملک کے لیے قربانیاں دیں کہ انہیں یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ ان کا نام بھی باقی رہے کہ کوئی ان کے نام کو بنیاد بنا کر اس ملک سے کچھ مانگتا پھرے تو ہم اور آپ کس باغ کی مولی ہیں جو اس دھڑلے سے وطن عزیز کے خلاف بولیں۔
مریم نواز گرفتار ہو چکی ہیں۔ اور ان کے پارٹی کارکنان جو ایوان کا حصہ ہیں، انہوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر ڈالا کہ اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ یاد رکھیے کسی بھی ملک میں ہزاروں سیاستداں ہوتے ہیں لیکن ان میں سے معدودے چند ایسے افراد جو انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں، وہ راہنما بن پاتے ہیں۔ ان گنتی کے چند افراد کو سیاست کے گرو لیڈر مانتے ہیں۔ اور اس لمحے مریم بی بی کے پاس بھی ایک سیاستدان سے لیڈر بننے کا سنہری موقع ہے۔ اب یہ ان پہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں یا اس موقع کو گنواتی ہیں۔
اگر مریم بی بی اس لمحے اپنی ذات کا سوچتی ہیں، صرف ایک سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے خود کو منسلک سمجھ کے سوچتی ہیں۔ تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود ہزاروں سیاستدانوں کی طرح ہی تاریخ کا کوئی گمنام گوشہ پائیں گی۔ لیکن اس وقت اگر وہ خود کو تمام سیاسی وابستگی سے ایک لمحے کے لیے ہٹ کہ خود کو صرف پاکستانی سمجھتی ہیں تو دو رائے ہو ہی نہین سکتیں کہ وہ تاریخ میں اپنا مقام ایک راہنما کے طور پہ پا لیں گی۔ لیکن اس حوالے سے فیصلہ مریم نواز صفدر کو کرنا ہے کہ وہ اس لمحے کیا چاہتی ہیں۔
اگر صرف سیاستدان ہی بننا ہے تو اپنی گرفتاری کو کیش کروائیے۔ ایوان میں ہنگامہ کروائیے۔ اور پارٹی کارکنان کو احکامات دیجیے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ متنازعہ بیانات کی بھرمار کر دیجیے۔ دوسرے سیاستدانوں کے خلاف اخلاقی معیار سے کئی درجے نیچے گفتگو کیجیے۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا اور آپ کا درجہ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک عام سیاستدان سے بڑھ کے نہیں ہو گا۔
لیکن اگر مریم صاحبہ اس وقت وسعت قلبی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ذات کو، اپنے خاندان کو، ملک کے لیے سمجھتے ہوئے، اس لمحے پاکستان کو سب سے پہلے سمجھتی ہیں تو وہ صرف ایک بیان دے سکتی ہیں، وہ صرف اپنے قابل بھروسہ ساتھی کی مدد سے میڈیا میں ایک پریس ریلیز جاری کروا سکتی ہیں جس میں صرف مختصر سی تحریر ہو کہ میری گرفتاری اس وقت اہم نہیں اور میں مقدمات کا سامنا کروں گی۔ میری اپنے کارکنان سے اپیل ہے کہ وہ میری گرفتاری پہ احتجاج و ہنگامے کے بجائے کشمیر کے مسئلے کو ترجیح بنا لیں۔
حکومت سے اختلافات ہم رکھتے ہیں اور رکھیں گے لیکن اس وقت ہماری ترجیح کشمیر ہونی چاہیے۔ ہمیں کشمیر میں جاری ظلم و ستم پوری دنیا کو دکھانا ہے۔ اور پاکستان کے خلاف کسی قدم پہ ہم حکومت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بس اتنی سی بات۔ اور آپ یقین کیجیے مریم نواز جیل میں قید میں رہتی ہیں تو بھی اس ملک کی ایک بڑی راہنما بن کے ابھریں گی۔ اور پاکستانی سیاست میں ان کے نام کا ڈنکا بجے گا۔ لوگ انہیں ان کے نام سے پہچانیں گے۔ وہ یہ بھول جائیں گے کہ مریم بی بی نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف مریم بی بی کے پاس ہے۔
کردار پہ بحث نہیں، کرپشن کا فیصلہ بھی عدالتوں نے کرنا ہے ، ذات کا بخیے ادھیڑنا بھی مقصور نہیں، صرف ایک لمحہ سوچیے آج مخالفین بھی بھٹو کا نام لیتے ہوئے اپنا لہجہ احترام کے دائرے میں کیوں لے آتے ہیں؟ کیا کبھی سوچا کہ اس کے ذاتی کردار کے بجائے اس کا نام ایک علامت بن کے کیسے ابھرا؟ بھٹو نے پاکستانی سیاست کی سختیاں برداشت کیں۔ اس نے اپنے باپ دادا کے نام کو کیش کروانے کے بجائے ایسے فیصلے کیے کہ بھٹو سیاسی کارکنوں کے دل میں اتر گیا۔
فوری اور بروقت فیصلہ آپ کا نام تاریخ میں امر کر دیتا ہے اور اگر آپ فیصلے میں تھوڑی سی بھی تاخیر کر دیں تو آپ بھی تاریخ میں ایسے گمنام رہتے ہیں جیسے اربوں لوگ رہتے ہیں۔
maltepe escort
kurtköy escort
pendik escort
göztepe escort
bağdat caddesi escort
ataşehir escort
acıbadem escort
içerenköy escort
kozyatağı escort
küçükyalı escort
kadıköy escort bayan
ümraniye escort bayan
bostancı escort bayan
ataşehir escort bayan
anadolu yakası escort bayan
kadıköy escort
ataşehir escort
bostancı escort
ümraniye escort
anadolu yakası escort
bostancı escort
bostancı escort
serifalı escort
serifalı escort
serifalı escort
ataşehir escort
kadıköy escort
bostancı escort
ümraniye escort
kartal escort
maltepe escort
pendik escort
kurtköy escort
anadolu yakası escort
شاہد عباس راولپنڈی کے رہائشی ہیں اورگزشتہ کئی سال سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، آپ نے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرزکررکھا ہے اورصحافتی سرگرمیوں میں انتہائی دلجمعی سے حصہ لیتے ہیں