ماحولیاتی آلودگی اس وقت دنیا کا سب بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نمودار ہونے سے انسانوں کے ساتھ کرہ ارض پر جنگلی و آبی حیات کے لیے بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے دنیا بھر میں موثر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر ساتواں ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان کا شمار ان ممالک میں نہیں ہوتا جو ماحول کو متاثر کرتے ہوئے فضاء میں زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں پوری دنیا کو باور کروایا کہ پاکستان فضائی آلودگی پھیلانے میں کم سے کم درجے پر ہے لیکن اس کے باوجوہ زیادہ متاثرہ ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے شرکاءکو بتایا کہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے میں زیادہ موثر حکمت عملی اپنا کر اس پر اقدامات اٹھا رہا ہے۔
رواں سال سموگ کوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت پہلے سے ہی تیاریاں کر رہی ہے، انہی اقدامات کے سلسلے میں ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کو 20 اکتوبر سے 31 دسمبر تک 70 دنوں کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ماضی میں ہم نے ماحولیاتی آلودگی کو سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے آج ہمیں اسے کنٹرول کرنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے کاروبار بند کر اقدام اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ ہماری پالیسی بند کمروں اور اے سی والے ہالز میں بنتی ہے۔ ہم وقتی طور صرف ایک زاویے پرسوچتے ہیں لیکن زمین پر آکرزمین والوں کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں کی بندش سے کتنے مزدور دیہاڑی دار بے روزگار ہو جائیں گے اس کے بارے میں شاید کسی نے نہیں سوچا۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب بھر میں دس ہزارسے زائد بھٹے ہیں۔
ایک بھٹے پر سو سے زیادہ مزدور براہ راست کام کرتے ہیں، اب اندازہ لگائیں دس ہزار بھٹوں پر تقریباً سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ افراد بنتے ہیں جو اسی بندش کے دوران بے روزگار ہوجائیں گے۔ ان افراد کے ساتھ ان کا پورا خاندان بھی متاثر ہوگا جو پہلے ہی غربت کی نچلی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ غریب بھٹہ مزدور تین سے پانچ سو بمشکل دیہاڑی کا کماتے ہیں غربت کی وجہ سے پہلے ہی ان کے بچے جسمانی طور پر کمزور اور بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ روز گار کی بندش سے ان کی حالت مزید ابتری کی طرف چلی جائے گی۔ اب ذرا اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ مزدور و دیگر پیشے جو بلواسطہ طور پر متاثر ہوں گے ، اس دو ماہ دس دن کی بھٹوں کی بندش سے انیٹوں کی قیمت میں اضافے کے علاوہ ان کی مارکیٹ قلت بھی ہوجائے گی، جس سے تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوگا۔ اس شعبہ سے وابستہ کاریگر، مستری ، مزدور کے ساتھ سیمنٹ ،سریا، بجری، سینٹری ، شٹرنگ ،ٹائیل اور لکٹری و لوہے کے گیٹ دروازے بنانے والوں کا کام اور کارو بار دونوں متاثر ہوں گے۔ ان میں سے اکثر لوگوں کو بے روزگاری کاسامنا کرنا پڑے گا۔ فیکٹریوں کے مال کی کھپت کم ہونے سے وہاں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
بھٹے کے کارو بار سے منسلک گڈز ٹرانسپورٹ بھی اس بندش کی زد میں رہے گی۔ بلوچستان ، سندھ ، اور خیبر پختونخواہ میں کوئلہ تو نکالا جاتا ہے لیکن اس کی زیادہ کھپت پنجاب میں بھٹہ انڈسٹری پر ہوتی ہے ۔ پاور سیکٹر میں جتنا کوئلہ استعمال ہوتا اس سے کہیں زیادہ اینٹوں کے بھٹوں میں ایندھن کے طور پر استعمال ہورہا ہے ۔ گزشتہ ہفتے حیدر آباد کے نزدیک کوئلے کی کانوں پر کام کرنے والے مزدور نے احتجاج کیا کہ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے بند ہونے سے ان کا روزگار خطرے میں ہے، ان مزدوروں کو ان کے مالکان نے کہہ دیا کہ کوئلہ کی سپلائی متاثر ہونے سے وہ مجبوراً کچھ ماہ کے لیے کوئلہ نکالنے کا کام بند کر دیں گے۔ جبکہ کوئلے کو زیادہ دیر تک کھلی فضاء میں رکھنے اس کی طاقت کم پڑجاتی ہے جس کی وجہ سے کوئلے کی کانوں پر کام بند کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف نے بے گھر و غریب افراد کے لیے پچاس لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا ہے جس میں آدھے گھر صرف پنجاب میں تعمیر ہونے ہیں۔ گھروں کی تعمیر کا آغاز جلد ہی پنجاب سے شروع ہو جائے گا، اس سلسلے میں چکوال کے نزدیک ایک نیا شہر آباد کیا جائے گا۔
گھروں کی تعمیر کا خواب پاکستان تحریک انصاف کا ہو یا ایک اپنا گھر بنانے کا خواب عام پاکستانی کا ہو، اس مہنگائی کے علاوہ تعمیراتی شعبہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی بھٹہ انڈسٹری کی بندش ہونے سے کہیں یہ خواب ادھورے نہ رہ جائیں۔ حکومت نے پنجاب بھر کے تمام بھٹوں کو آلودگی کم کرنے کے لیے زیگ زایگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے بھٹہ مالکان کو مزید سرمایہ کی ضرورت کے ساتھ انہیں کچھ وقت کی مہلت بھی درکار ہوگی۔ حکومت بھٹہ مالکان کو ٹیکنیکل سپورٹ کے ساتھ بلا سود قرضوں کی فراہمی کرے تو یہ جلد اپنے بھٹوں کو نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ آلودگی اور سموگ کو کنٹرول کرنے کے لیے بھٹوں کی بندش کے عارضی اقدام کی بجائے دیر پا اور موثر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
آج دنیا کے بیشتر ممالک سموگ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، جس کے لیے وہ اپنی ٹرانسپورٹ کو ایندھن کی بجائے بیٹری و الیکٹرک نظام پر دوڑا رہے ہیں۔ ہم نے گاڑیوں کو ایندھن سے گیس پر تبدیل تو کر دیا لیکن جب گاڑیاں گیس پر منتقل ہوئیں تو ہمارے پاس گیس ہی محدود بچ گئی۔ چین نے سموگ کو کم کرنے کے لیے بیجنگ میں سات میٹر اونچا ایک بڑا فلٹر لگایا جو تیس ہزار کیوبک میٹر ہوا کو دھواں اور بیکٹریا سے پاک کر کے صاف اور شفاف ہوا فراہم کرتا ہے یہ فلٹر نہ صرف ماحول میں سے 75 فیصد گرد و غبار کو صاف کرتا ہے بلکہ اس فلٹرمیں جو کاربن کے ذرات جمع ہوتے ہیں چینی ان سے زیورات بنا رہے ہیں یعنی چین والے آلودگی کو کنٹرول کرنے سے دوگنا فائدہ حاصل کر ہے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی واقعی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی جس کے خاتمے کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے، لیکن اس کو قابو میں لانے کے لیے ایسے طریقے اپنانے کی ضرورت ہے جس سے کم از کم کسی کا کاروبار اور روزگار متاثر نہ ہو۔