The news is by your side.

چور بھی احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں

پاکستان میں موجود جتنی بھی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں وہ اس وقت حکومت پر تنقید برائے تنقید کے عمل سے گزر رہی ہیں کیوں کہ ان کے پاس اپنی بد عنوانیوں کے جواب میں تو کچھ ہے نہیں۔ بد قسمتی سے وہ عوام جو ان سیاسی و مذہبی جماعتوں سے کسی بھی طرح سے وابستہ ہیں مجبوراً ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ چوں کہ ہمیشہ سے ایسا ہی کیا ہے لہٰذا ان کی عقل پر ایسے شخصی پردے پڑے ہوئے ہیں کہ اپنے رہنماؤں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ اس سوچ سے بھی ماورا ہو چکے ہیں کہ پاکستان کے لیے ان کا کردار کتنا اہم ہے، پاکستان ہے تو یہ ہیں، ان کا ایک ایک پودا پاکستان کے لیے کتنا ضروری ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستان کو اس حالت میں پہنچانے والے وہی لوگ ہیں جو گزشتہ پچیس تیس سالوں سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتے رہے ہیں اور سوائے اپنے ذاتی مفادات سلجھانے کہ انھوں نے عوامی مفاد میں کچھ نہیں کیا۔ ان لوگوں نے اپنی ذاتی زمینوں کے رقبے بڑھائے ہیں، اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوائی بلکہ وہیں نوکریا ں یا کاروبار کا بھی بندوبست کر کے چھوڑ دیا ہے، اب ان کی حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے تو پھر کیا کیا جائے؟ سمجھنے کا وقت ہے پاکستان کے لیے ہماری آنکھوں کا کھلنا بہت ضروری ہے، خوابِ غفلت سے جاگنا بہت ضروری ہے۔

پاکستان پکار رہا ہے! ۔۔کسی کو برا کہنے سننے کا کوئی فائدہ نہیں، سب کو سب کچھ سمجھ آ چکا ہے کہ پاکستان کو کس نے کیا فائدہ اور کیا نقصان پہنچایا ہے۔ اب تمام رازوں پر سے پردے ہٹ چکے ہیں، ابھی بھی وقت ہے کہ بے وجہ کا مخالفانہ رویہ ترک کیا جائے اور جہاں ضروری ہےحکومت وقت کی رہنمائی کی جائے اور اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اب سے ملک میں بد عنوانی نہیں چلنے دی جائے گی۔ جس کسی نے جو دینا ہے حکومت سے بات کرے اور وقت ضائع کیے بغیر آگے آئے۔ یہ وہی پاکستان ہے جس کے حصول کی خاطر جان و مال اور عزتوں تک کو قربان کر دیا گیا تھا آج ہم اسی پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، کیا ہم ان قربانیوں سے منہ پھیر رہے ہیں؟ پاکستان ہی ہے جس نے ہمیں امان دی ہے جس نے ہمیں مقام دیا ہے جس نے ہمیں نام دیا ہے، دنیا میں پہچان دی ہے، اب وقت آچکا ہے کہ ہم پاکستان کا مقام دنیا میں بحال کروائیں، یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ جمہوریت کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اب جمہوریت کا صحیح چہرہ دنیا دیکھے گی۔ تمام ادارے اپنے اپنے لوگوں کے لیے اصلاحی پروگرام شروع کریں اور دیکھ لیں کہ سہل پسندی کو ترک کرنا مشکل ہے یا پھر جیلوں میں بیٹھ کر چکی پیسنا۔

وہ تمام پاکستانی جو ملک میں گزشتہ تین دہائیوں سے حکومت کرنے والوں کے حامی ہیں برائے مہربانی اس بات کو عام پاکستانیوں کے لیے واضح کردیں کہ پاکستان اربوں روپوں کا مقروض کیسے ہوا ہے اور یہ بات بھی وضاحت سے سمجھا دی جائے کہ یہ جن جن حکمرانوں نے گزشتہ ادوار میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالے رکھی ہے ان کے حالات اتنی تیزی سے کیسے بہتر سے بہترین ہوتے چلے گئے ہیں کہ انھیں خود ہی نہیں پتا کہ ان کی جائیدادیں کہاں کہاں ہیں اور ان کے کتنے بینک اکاؤنٹ ہیں۔ ایوان بالا میں ہمارے ایک معزز سیاست دان یہ فرما رہے تھے کہ جو ہم نے کیا اگر انھوں (موجودہ حکومت ) نے بھی وہی کرنا تھا تو پھر بڑے بڑے دعوے کیوں کیے، تو ان سے گزارش یہ عرض کرنی ہے کہ قابل احترام جناب آپ لوگوں نے دنیا جہان سے قرضے لے کر قریب پورے پاکستان کو گروی رکھ کر اپنے گھر بھرے ہیں لیکن اب قرضہ حقیقی معنوں میں ملک کو چاہیے، یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ لوگ کس منہ سے موجودہ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ اصولاً نئی حکومت کو (جو ملکی تاریخ میں پہلی بار اقتدار میں آئی) کچھ وقت دے دیں، ہا ں اگر پھر آپ کو لگے کہ یہ بھی آپ جیسے ہی لوگ ہیں تو پھر جو دل چاہے کہتے اور کرتے پھریں۔

پاکستان مفاد پرستوں اور موقع پرستوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں گو کہ گزشتہ ادوار سے وابستہ لوگ موجود ہیں لیکن اللہ بھی توبہ کرنے والوں کو معاف کردیتا ہے اگر یہ لوگ توبہ کرچکے ہیں تو پھر ان پر تہمتیں تو نہیں لگائی جاسکتیں کہ یہ کون سے دودھ کے دھلے ہیں۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں یہاں کہا یہ جاتا ہے کہ جو سب سے چھوٹا چور ہے وہ ٹھیک ہے۔ اپنے ہم وطنوں کی اندھی تقلید کو دیکھتے ہوئے دل بہت دکھتا ہے۔ دنیا کی ترقی عوامی شعور کی مرہونِ منت ہے، لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے انھوں نے اپنے میں سے ان لوگوں کو ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے چنا ہے جو ان میں زیادہ پڑھے لکھے اور جہاں دیدہ لوگ ہیں وہ لوگ کسی تقسیم پر یقین نہیں رکھتے جیسا کہ دنیا کہ بہت سارے ممالک میں پاکستان یا اسلام سے تعلق رکھنے والوں کو اہم عہدوں پر فائز کردیا گیا ہے۔

پاکستان میں نہ تو ذہین لوگوں کی کمی ہے اور نہ ہی محنت کشوں کی، بس کمی ہے توان بہادر لوگوں کی جو شر اور خیر میں تفریق کرنا جانتے ہوں اور حق بات کہنے کی طاقت رکھتے ہوں جو غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کو جہاد سمجھتے ہوں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ حق بات کہنے والے ہمیشہ سے بہت کم رہے ہیں۔ ایک بہت بڑی مثال واقعہ کربلا کی ہے جہاں حق پر ہونے کے باوجود اہلِ بیت کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا لیکن تاریخ رہتی دنیا تک ان حق پرستوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی رہے گی اور گواہی دیتی رہے گی کہ بے شک حق ہی باقی رہنے کے لیے ہے۔

پاکستان ہم سب سے یہ امید کر رہا ہے کہ حقیقت کا ساتھ دیں، بیماری اس نہج پر پہنچی ہوئی ہے جہاں عملِ جراحی کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے مریض کو کچھ ساعتوں کے لیے بے ہوش کیا جاتا ہے اور ہوش میں آنے سے لے کر ایک معینہ مدت تک انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے۔ اب پاکستان کی صورتِ حال بھی ایسی ہے، بد قسمتی سے اَن پڑھ اور کم علم والے لوگ آج بھی جراحی کے عمل سے اجتناب برتنے کی صلاح دیتے ہیں کیوں کہ وہ اپنے مریض سے نہیں بلکہ کسی اور سے مخلص ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم لوگ با شعور ہونے کا مظاہرہ کریں گے اور اس عملِ جراحی کے عمل کے ساتھ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں گے۔ کوئی شک نہیں کہ رات جب بہت گہری ہوجاتی ہے تو اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ اب کچھ دیر میں ہی روشنی ہونے والی ہے۔ رات گہری ہو چکی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں