The news is by your side.

ایسا برطانوی جو تمام عمرپاکستان میں علم کی شمع جلاتا رہا

عنایت اللہ شہزاد


21اکتوبر 1917کو برطانوی شہر ہل میں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں میں سے ایک کا نام والدین نے جیوفری ڈوگلس لینگ لینڈز رکھا۔ لینگ لینڈز کے والد اینگلو امریکی کمپنی میں ملازم تھے جبکہ ان کی والدہ کلاسیکی لوک رقص کی استانی کے پیشے سے وابسطہ تھیں۔ جی ڈی لینگ لینڈز ابھی ایک ہی سال کے ہوگئے تھے کہ ان کے والد ایک موذی مرض سے انتقال کر گئے۔ یہ حادثہ لینگ لینڈز کی زندگی میں آنے والی مصائب کا آغاز تھا۔

اس واقعے کے بعد لینگ لینڈز کی والدہ انھیں اور ان کے بڑے بھائی کو ساتھ لے کر برسٹول منتقل ہوگئیں۔ 9سال بعد یعنی 1927کو لینگ لینڈز پر ایک اور قیامت اس وقت آن پڑی جب محض 10سال کی عمر میں ان کی والدہ بھی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر زندگی کے سفر کو آگے نہ بڑھا سکیں۔ اس وقت لینگ لینڈز کے دادا حیات تھے لہذٰا وہ اپنے دادا کے ہاں رہنے لگے۔ اسی سال کے آخری ہفتے یعنی 24دسمبر کو ان کے دادا بھی وفات پاگئے اور یوں محض 11سال کی عمر میں جی ڈی لینگ لینڈز اور ان کے بھائی مکمل طور پر یتیم ہوگئے اور ان کا کوئی رشتہ دار باقی نہ رہا۔

قانونِ قدرت ہے کہ ایک راستہ بند ہوجائے تو پروردگار عالم کئی دوسرے راستے کھول دیتا ہے۔ یہ انسان کی سمجھ بوجھ اور جیت کی جستجو کے حوصلے پر منحصر ہے کہ وہ ان راستوں کو کیسے ڈھونڈ نکال سکتا ہے۔ جی ڈی لینگ لینڈز اور ان کے بھائی نہ بھی ہمت نہ ہارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی مشکل تب آسان ہوئی جب ان کے والد کے ایک دوست نے ان کی پرورش کے اخراجات سمیت تعلیم و تربیت کی زمے داری بھی اپنے سر لے لی۔

سال 1935،اے لیول مکمل کرنے کے بعد لینگ لینڈز نے صرف 18سال کی عمر میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور 4سال تک اسکول میں انگریزی اور ریاضی کے استاد رہے۔ سن 1939 میں جب دنیا دوسری جنگ عظیم کی زد میں آچکی تھی، لینگ لینڈز بھی برٹش آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے۔ 1944کو بطور رضاکار برٹش انڈین آرمی کا حصہ بنے اور ہندوستان منتقل ہوگئے۔ 3ستمبر 1944کو انڈین برٹش آرمی میں ایمرجنسی کمیشن کے زریعےء4 بطور سیکنڈ لیفٹننٹ ان کی تقرری ہوئی۔

1947کو جب پاکستان آزاد ہوا تو لینگ لینڈز پاکستان آرمی کے انسٹرکٹر مقرر ہوئے اور روالپنڈی میں تعینات ہوئے۔ 6سال بعد پاکستان آرمی کے ساتھ برٹش آرمی کا کنٹرکٹ جب ختم ہوا تو باقی انسٹرکٹرز سمیت لینگ لینڈز بھی واپس اپنے ملک برطانیہ روانہ ہوگئے تاہم اس وقت کے صدرِ پاکستان ایوب خان نے لینگ لینڈز کو پاکستان میں رہنے کی درخواست کی۔

جی ڈی لینگ لینڈز کے پاس دو راستے تھے۔ ایک طرف مسائل میں گھرا پاکستان تھا، جس کی معیشت ابھی ٹھیک طرح سے سنبھلی بھی نہیں تھی اورترقی پذیر ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ دوسری جانب ان کا آبائی ملک برطانیہ جہاں برسوں سے دنیا پر کی جانیوالی حکمرانی کے بعد حاصل ہونے والی بے شمار دولت، جدید سہولیات سے بھر پور شہر ، برٹش آرمی کے ریٹائرڈ ملازمین کیلئے مختص کی گئی شاندار کالونیز اور کئی اعزازات لینگ لینڈز کے منتظر تھے۔ سب سے بڑھ کر ان کی بچپن کی وہ یادیں جو انھوں نے برسٹول کی گلیوں میں کھیلتے کودتے زہن کے نہاں خانوں میں نقش کر چکے تھے اور عمر بھر ان لمحوں کو یاد کیا کرتے تھے۔

مگر جیوفری لینگ لینڈز نے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی طرح پاکستان میں رہنے اور روشن پاکستان میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

لینگ لینڈز کو لاہور کے ایچیسن کالج میں بطور ٹیچر تعینات کیا گیا جہاں وہ انگریزی اور ریاضی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ 25سال ایچیسن کالج میں گزارنے کے بعد کیڈٹ کالج رمزک میں مزید 10سال تک درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ 41سال تک پاکستان میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے کے بعد لینگ لینڈز اگر چاہتے تو تب بھی واپس اپنے ملک کی عیش و آرام والی زندگی گزار سکتے تھے تاہم انھوں نے پاکستان کے سب سے پسماندہ علاقے چترال میں اسکول کا چارج سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ سن 1989کو چترال میں واقع سایورج پبلک اسکول (جسے بعد میں ان کے نام سے منسوب کرکے لینگ لینڈز اسکول اینڈ کالج رکھا گیا) میں بطور مدرس اور پرنسپل تعینات ہوئے۔

اپنی زندگی کے 23قیمتی سال اسی اسکول میں گزارنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی اور لاہور منتقل ہوگئے۔ مگر تب تک چترال میں علم کی روشنی پورے علاقے میں پھیل چکی تھی، سب سے پسماندہ ضلع شرح خواندگی میں صوبے کا دوسرا بڑا ضلع بن چکا تھا، سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجینئرز، پائلٹ اور بیوروکریٹ چترال میں جنم لے چکے تھے اور تعلیم و تعلم کا یہ عمل آج بھی اپنے پورے آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔

جی ڈی لینگ موجودہ وزیر اعظم عمران خان، سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف سمیت کئی اہم شخصیات کے استاد رہ چکے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں 1987میں ستارہ امتیاز، 2004میں ستارہ پاکستان جبکہ 2011میں ہلال امتیاز کے اعزازات سے نوازا گیا۔اس کے علاوہ برطانوی حکومت نے بھی انسانیت کی خدمت کرنے والے اس عظیم انسان کو بیش بہا اعزازات سے نوازا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام برطانیہ میں گزارنے کی پیشکش بھی کی مگر انھوں نے لاہور ہی میں رہنے کو ترجیح دی اور بلاخر 2جنوری 2019کو لاہور میں ان کی وفات کے ساتھ ساتھ انسانیت کا ایک معتبر باب بھی ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔

جی ڈی لینگ لینڈز نے اپنی 101سالہ زندگی میں ایک ہی اصول کو اپنائے رکھا اور وہ تھا انسانیت اور انسانیت کی خدمت، ان کی زندگی کا کل خلاصہ ہی یہی تھا کہ انسانیت کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور سکون پانے کے لئے آرام کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ انھوں نے بھی بے دریغ قربانی دی، ساری زندگی پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کی اور دنیا کو رہنے کیلئے ایک بہتر جگہ بنانے میں اپنے حصے کے چراغ جلاتے ہوئے پاکستان کے کونے کونے کو منور کیا اورفانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں ہر اس طالب علم کے غم میں شریک ہوں جسے کے سر سے جی ڈی لینگ لینڈز جیسے عظیم استاد کا سایہ اٹھ گیا اور لینگ لینڈز صاحب کو ان کے بے بدل خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں