The news is by your side.

آواز اور انسانی زندگی

آوازیں، ہمیں متوجہ ہی نہیں کرتیں‌بلکہ ہماری ذہنی حالت اور جسمانی صحت کو متاثر بھی کرتی ہیں. ہمارے کان مختلف قسم کا شور یا آواز یں سنتے رہتے ہیں. خاص طور پر شہروں میں بسنے والے مشینوں کا شور، ارتعاش اور اس سے پیدا ہونے والی آوازوں کے عادی ہوتے ہیں جب کہ گاؤں دیہات اور جنگل کے قریب رہنے والے زیادہ تر پرندوں کی بولیاں، دریا کے بہنے کی آواز، تالاب اور جوہڑوں میں کسی وجہ سے ہلچل اور کئی دوسری آوازیں بھی سنتے ہیں، لیکن ان کی زندگی شور کی اس طرح عادی نہیں ہوتی جیسا کہ کسی شہری کی ہوسکتی ہے. کئی طرح کی یہ آوازیں انسانوں کے لیے سود مند یا خوشی اور مسرت کاباعث ہونے کے علاوہ نہایت نقصان دہ بھی ہوتی ہیں.

یہ تو زمین پر بسنے والے انسانوں کی بات ہے، لیکن جو لوگ خلا میں سفر کرتے ہیں، کیا وہ بھی خلا میں آوازیں سنتے ہیں؟ اس سوال کا جواب سائنسی تحقیق اور ان پر مشتمل مختلف رپورٹیں دیتی ہیں. ماہرین کہتے ہیں کہ روشنی کی طرح آواز بھی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے لیکن روشنی کے برعکس آواز ،خلا میں سفر نہیں کرسکتی۔ صوتی توانائی ارتعاش کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ آواز پیدا کرنے والے آلے کا حصہ تیزی سے تھرتھراتا رہتا ہے۔ وہ ارتعاش ہوا میں منتقل ہو کرمالیکیولز کو آپس میں ٹکرانے کا باعث بنتا ہے۔ یوں صوتی توانائی ایک سے دوسرے مالیکیول تک آگے بڑھتی ہے اور ہمارے کانوں تک پہنچتی ہے۔ آواز صرف ہوا کے مالیکیولز کو بھی وسیلہ بنا سکتی ہے لیکن سائنس بتاتی ہے کہ خلا بالکل بے آواز ہے۔ وہاں اسے ارتعاش دینے کے لیے مالیکیولز موجود نہیں ہیں۔

آواز کی پیمائش کیسے کی جاسکتی ہے؟سائنس دانوں نے جانا ہے کہ آواز لہروں کی صورت میں آگے بڑھتی ہے اور لہر کی شکل پیدا کی گئی آواز کا تعین کرتی ہے۔ آواز کی پچ کا دارومدار صوتی لہروں کی فریکوئنسی پر ہے۔ فریکوئنسی کا مطلب ہے کہ آواز ایک سکینڈ میں کتنی لہریں یا ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اس کے لیے سائنس نے ایک پیمانہ مقرر کیا ہے اور اس کی جو اصطلاح وضع کی ہے اسے ہرٹز(Hz) کا نام دیا ہے. آواز کو اسی میں ناپا جاتا ہے۔ آواز کی بلندی کا دارومدار لہروں کی اونچائی پر ہوتا ہے۔

سونار نامی آلہ الٹرا ساؤنڈ لہروں کی مدد سے معلوم کرتا ہے کہ کوئی چیز کتنی دور اور کیسی ہے؟ آوازیں نشر ہوتی اور چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہیں۔ لہروں کی روانگی اور واپسی کے وقت کا فرق چیزکا فاصلہ بتاتا ہے۔ سونار کے ذریعے کشتی کے نیچے سمندر کی گہرائی ناپی جاسکتی ہے۔ آوازوں کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں اور انھی میں ایک موسیقی بھی ہے. موسیقی کی زبان میں مختلف سروں کو لکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کی مدد سے گلوکار یا موسیقار ان سروں کو بجانے کے قابل ہوجاتا ہے اور وہ آوازیں پیدا ہوتی ہیں جو جذبات اور دل پر اثر کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک آواز کو سونک بوم بھی کہا جاتا ہے. دراصل ہوائی جہاز آواز کی رفتار سے تیز سفر کرسکتے ہیں۔ ان کے انجنوں کی گڑگڑاہٹ یا مخصوص آواز ان کے گزرنے کے بعد سنائی دیتی ہے۔ سائنس نے بعد میں سنائی دینے والی آواز کو سونک بوم کا نام دیا ہے۔ اس کے علاوہ بیش تر آوازیں واحد فریکوئنسی اور طول موج کی حامل نہیں ہوتیں۔ آواز کے ساتھ دیگر فریکوئنسیز مل جاتی اور مخصوص لے پیدا کرتی ہیں۔ ان مختلف فریکوئنسیز کو ہارمونکس کہتے ہیں۔

آواز کی رفتار کیا ہوسکتی ہے؟تمام آوازیں گھر کے اندرونی درجہ حرات میں 343میٹر (1125 فٹ) فی سکینڈ کی رفتار پر سفر کرتی ہیں۔ آرکسٹرا کو دیکھیے تو اس میں مختلف آوازیں پیدا کرنے کے لیے متعدد ساز شامل ہوتے ہیں۔ عموماً آرکسٹرایا سازینہ وائلن، بربط، طبلے، پیانو، بانسری، بین وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

دنیا یا ہماری زمین پر جہاں خوب صور، دل موہ لینے والی یا کانوں کو بھلی معلوم ہونے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں، وہیں یہ خطرناک بھی ہوسکتی ہیں. یہ انسان کے لیے پریشان کن اور بسا اوقات تکلیف دہ یاسماعت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں. سائنس دانوں کے مطابق120 ڈیسی بل سے زیادہ فریکوئنسی والی آوازیں انسانی کانوں کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی وجہ سے انسان بہرہ بھی ہوجاتا ہے۔

ہم نے اکثر الٹرا ساؤنڈ کا لفظ سنا ہے جو دراصل سائنس دانوں کے نزدیک ایسی آوازیں ہیں‌جو 20,000ہرٹز سے زائد فریکوئنسی رکھتی ہیں۔ مہدی حسن پاکستان کے مایہ ناز گلوکار تھے جنھوں نے کئی غزلیں اور فلمی گیت گائے جو بے مثال اور نہایت مقبول ہوئے. ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا تھاکہ ایک موقع پرریاض کرتے ہوئے ان کے کمرے میں رکھا گلاس ٹوٹ گیا تھا. کیا گلوکار واقعی شیشہ توڑ سکتا ہے؟سائنس داں کہتے ہیں کہ تقریباً تمام میٹریل ارتعاش سے متاثر ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں مختلف فریکوئنسیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی چیز کی فطری فریکوئنسی جتنی ہی فریکوئنسی کی حامل آواز پیدا کی جائے تو وہ بازگشت پیدا کرسکتی ہے۔ اگر کوئی گلوکار شیشے کی فریکوئنسی والے خالص سر میں گائے تو شیشہ شدید ارتعاش کے باعث ٹوٹ سکتا ہے۔

(تدوین و اضافہ: توقیر اسلم …….. ماخذ :آواز سے متعلق سائنسی تحقیق پر مبنی مقالہ جات اور مضامین)

+ posts
شاید آپ یہ بھی پسند کریں