پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے جسے ہر سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے 25 فروری 1948ء کو اردو قومی زبان کا درجہ حاصل کر گئی ،مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں اردو قومی زبان ہونے کے باوجود لسانی زبانوں کے سامنے بے یارو مددگار ہے۔ دیگر زبانوں کے حوالے سے پاکستان میں مختلف دن منائے جاتے ہیں مگر اردو کے قومی زبان کا دن منانے سے پرہیز کیا جاتا ہے ۔
اس طرز عمل کی وجہ سے پاکستان کے بچوں میں اُردو کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں ہوتی ہے اور بچے اور نوجوان اردو کے بارے میں محض اتنا جانتے ہیں کہ یہ پاکستان کی قومی زبان ہے ،اس کی ابتداء اس کی اہمیت اردو ادب، اردو ادب کیلئے رات دن ایک کرنے والے مفاکر، نثرنگار، شعراء، دانشور و دیگر کے حوالے سے انہیں بہت کم معلومات ہوتی ہیں جبکہ سرکاری سطح پر اردو نصاب بھی دن بہ دن سکڑتا جا رہا ہے جس سے یہ تشویش ہو چلی ہے کہ کہیں کسی روز اردو کو نصاب سے باہر ہی نہ کر دیا جائے۔
اردو کے قومی زبان ہونے کے بارے میں تو سب جانتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ اردو کے قومی زبان ہونے کے باوجود اور آئین پاکستان کا حصہ بننے کے باوجود اب تک اس کا سرکاری سطح پر نفاذ کیوں نہیں ہوسکا جبکہ اب اس بات کو کئی سال گزر چکے ہیں۔
آئین پاکستان کی شق(251 )کی ذیلی شق 1 میں واضح طور پر تحریر ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور آئین کی رو سے 15 برس کے اندر اندر اس کا سرکاری و دیگر اغراض کیلئے استعمال کے انتظامات کرنا حکومتوں کی ذمہ داری تھی جبکہ اسی شق کی ذیلی شق 2 میں یہ بھی درج ہے کہ انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جائے گی جب تک اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہیں ہو جاتے اسی طرح مذکورہ شق کی ذیلی شق 3 میں یہ درج کیا گیا ہے کہ اردو کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔
آئین پاکستان کے تحت اسے 1988ء تک پاکستان میں دفتری زبان کے طور پر اردو کو نافذ ہو جانا چاہیئے تھا مگر 31 سال کا زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اس جانب کوشش نہیں کی گئی ماسوائے سابق وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے 2015ء میں سرکاری حکم نامے کے تحت وفاقی اداروں کو اُردو کے دفتری زبان کی حیثیت سے نافذ کرنے کا کہا گیا جو ہوائی قلعے سے زیادہ نہ ثابت ہوسکا اور نہ ہی اس حکم نامے کے اطلاق کیلئے یادداشتی حکمنامےجاری نہیں کئے گئے اور نہ ہی آخری حکم نامے کے طور پر سرکاری اداروں کو وارننگ دی گئی کہ اگر انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے حکم نامے پر عمل درآمد نہیں کیا تو ان کے خلاف سخت ترین ایکشن لیا جائیگا، ورنہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اردو سرکاری زبان کے طور پر نافذ نہ ہو پاتی۔
اسی طرح سندھ اسمبلی میں 2016ء میں ایک قرار داد کے ذریعے سندھ میں سندھی زبان کے نفاذ کا ”غیر قانونی“ اعلان کیا ،دلچسپ امر ہے پیپلز پارٹی کی حکومت میں سندھ اسمبلی نے اسے منظور بھی کیا جبکہ اسی پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا آئین چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اردو زبان کی حیثیت متاثر کئے بغیر کسی صوبائی زبان کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اردو زبان بولتے ضرور ہیں مگر اس کو قومی زبان تسلیم کرنے اور نافذ کرنے میں لسانی رنگ نمایاں ہو جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے ۔بین الاقوامی زبان کے طور پر بھی اردو بولی اور تسلیم کی جاتی ہے دنیا کی 25 سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ اب وقت ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان، اردو کو آئینی لحاظ سےسرکاری طور پر نافذ فرمانے کے ساتھ 25 فروری کو نفاذ اردو کا دن منانے کا حکم بھی دیں جبکہ اردو ادب کی ترویج کیلئے اقدامات ہونے چاہیئں تاکہ ہماری آنے والی نسل کو اردو کی اہمیت کے بارے میں بتانے کیلئے ہمارے پاس مواد موجود ہو ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اردو کے نفاذ اور ترویج کیلئے پاکستان بھر میں یہ تاثر عام کرنا ہوگا کہ یہ کسی مخصوص لسانی اکائی کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ اس کی پہچان بین الاقوامی طور پر کی جاتی ہے اس لئے یہ پاکستان کی قومی زبان ہے اور جہاں اربابِ اختیار سے ہمیں یہ شکایتیں ہیں ، وہیں اردو کو اپنی زبان کہنے والوں سے بھی یہ گلہ اپنی جگہ موجودہےکہ اس زبان کواپنی زبان کہنےوالےبھی نفاذ اردوکےلیےکوئی خاص کام نہیں کررہےہیں۔