The news is by your side.

کراچی میں پانی کا بحران، حقیقی یا مصنوعی

بے حسی شہر قائد میں کوئی نئی بات نہیں ہے عوام کو بنیادی سہولیات سے دور رکھ کرسرکاری وغیر سرکاری اشرافیہ کراچی کی عوام کو مسلسل احساس محرومی دیکر ان کو اذیت دینے کا موقع جانے نہیں دے رہی ہے، شہر قائد میں پانی کا اگر بحران ہوتا تو پورے کراچی میں ہوتا یہ کیسا بحران ہے کہ وی وی آئی پیز کو فراہمی آب بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے اور منصوعی بحران کا ڈرامہ بناکر عوام الناس کو دکھایا جارہا ہے اور عوام الناس میں بھی بدقسمتی سے یہ شعور ختم ہوتاجارہا ہے کہ حق اوربھیگ میں کیا فرق ہوتا ہے ؟۔

اپنے بنیادی حقوق لینے کی جب تمیز قوموں سے ختم ہوجائے تو پھر اپنا حق بھی بھکاریوں کی طرح مانگا جاتا ہے اور یوں حق اور بھیک کے درمیان کا فرق ختم ہوجاتا ہے جس کا فائدہ آج تکmariobet ارباب اختیار سمیت ہراشرافیہ اٹھارہی ہے اور ویسے بھی اپنا حق مانگنا ہمارے پیارے وطن میں اچھا نہیں سمجھاجاتا ہے اس لیے آنے والے دور کا انتظار کیا جارہا ہے کیونکہ وقت تو ہمیشہ چھوٹا ہی ہوتا ہے لیکن دور ہر دور میں بڑا ہی ہوتاہے ۔

شہرکراچی کی باشعور عوام میں شمار ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتاہے صورتحال کا اگر جائزہ لیاجائے تو یہ درناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ میٹروپولیٹن سٹی کادرجہ رکھنے کے باوجود شہرقائداس درجے سے کہیں دور نظر آتا ہے۔ کچرے کے ڈھیر ،صاف پانی کا حصول کے لیے شہریوں کا دربدر خوار ہونا ،جانوروں اور انسانوں کے پانی ایک ہی معیار ہوتا جارہا ہے دعوؤں اور مسلسل لولی پاپ دینے کا واٹر بورڈ سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے اپنا طرہ امتیاز بنالیا ہے۔

صاف شفاف پانی کی فراہمی کا حصول شہر قائدکے عام شہریوں کے لئے ناممکن امر بنتا جارہا ہے لیکن تما م سرکاری اداروں بشمول ان کے ذاتی بنگلوز ،فارم ہاؤسز ،میں فراہمی آب کی بغیر کسی تعطل کے کیسے جاری ہے؟ پانی کے بدترین بحران میں ان وی آئی پیز کو پانی کی فراہمی کا مطلب ہے کہ شہر قائد میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے شہرقائد کی مظلوم غریب کے حصہ کا پانی ان شخصیات کو دیا جارہا ہے جو عرف عام میں وی آئی پیز کہلائے جاتے ہیں ۔

دوسری جانب صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقائق سامنے آرہے ہیں کہ شہرقائدمیں لوٹ مار کا اعشاری نظام قائم کرنے والوں نے شہرکراچی کے زیر زمیں پانی کو بھی نہ بخشا، صنعتی یونٹس نے زیر زمین پانی کو چوس کر پانی کو زمین کے اس قدر اندر پہنچا دیا ہے کہ عام علاقوں میں پانی کیلئے بورنگ کی گئی سطح تین سو فٹ تک جا پہنچی ہے جبکہ اتنی زیادہ گہرائی میں جا کر جو پانی دستیاب ہو رہا ہے وہ تین اقسام پر مشتمل پایا گیا ہے کراچی کے ضلع کورنگی، ملیر اور شرقی میں نمکین، جزوی میٹھا پانی دستیاب ہے جبکہ بقایا تین ضلعوں میں نمکین، جزوی میٹھا اور گدلا دھاتی ذرات پر مشتمل پانی دستیاب ہے جبکہ سمندرکے قریب بسنے والوں کو مذکورہ اقسام کے ساتھ ایسا پانی بھی دستیاب ہے جو سیسے، زنک،آرسینک کے مضر صحت اجزا پر مشتمل ہے جبکہ کچھ سمندر کے نزدیک جس میں منوڑا بھی شامل ہے ۔

زیر زمیں پانی کے ایسے نمونے بھی پائے گئے ہیں جس میں آئل پایا گیا ہے جبکہ کراچی میں شہریوں کوبورنگ کیلئے جگہیں تبدیل کرنا پڑیں جس کی اہم وجہ سیوریج جیسے بدبو دار پانی کا دستیاب ہونا تھا یہ واقعات ملیر ندی سے منسلک علاقوں میں زیادہ تر پایا گیا ہے، مذکورہ حقائق میں صنعتی یونٹس دو طرح سے زیر زمیں پانی کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں پہلے بے دریغ صنعتی استعمال سے پانی کی زیر زمیں سطح نیچے چلی گئی ہے دوسرا ملیر ندی میں اس قدر صنعتی فضلہ چھوڑا جا چکا ہے کہ زیر زمیں پانی اتنا بدبو دار ہو چکا ہے جو کہ قابل استعمال نہیں ہے، سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد سندھ حکومت نے اس سلسلے میں قدم اٹھایا ہے۔

اجازت ناموں کے بغیر زیر زمیں صنعتی پانی کا استعمال اب قابل جرمانہ ہونے کے ساتھ سخت سزاؤں پر مشتمل ہے عرصہ دراز سے صنعتی یونٹس نہ صرف زیر زمیں پانی چوری میں ملوث ہیں بلکہ رہائشی علاقوں کا بہت بڑا پانی کا کوٹہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ملی بھگت سے چوری کر لیتے ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے پانی کے صنعتی استعمال پر ٹیکس بھی عائد کیا گیا ہے لیکن تاحال وہ ہوا میں معلق دکھائی دے رہا ہے۔

شہری پانی سے بھرے ٹینکر اور ہائیڈرینٹ دیکھ کر خون کے گھونٹ پینے لگے ہیں، پمپنگ اسٹیشنز پر کم پانی کی فراہمی یہ ظاہر کر رہی ہے کہ کراچی کے شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی سے کوسوں دور کیا جا رہا ہے۔کراچی میں پانی کے بحران کی وجہ سے شہریوں نے تشدد کی سمت قدم اٹھا دئیے ہیں،آئے دن شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں پمپنگ اسٹیشن پر شہری جمع ہو کر واٹر بورڈ کے والو مین کے بجائے خود والومین بن جاتے ہیں جسے میڈیا اس لئے نظر انداز کر دیتا ہے کہ اسے شہریوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں صاف دکھائی دے رہی ہیں ۔

شہر کے 70 فیصد علاقوں میں مختلف نوعیت کے پانی بحران کی وجہ سے شہریوں میں صبروتحمل کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے شہر میں غیر اعلانیہ بجلی کی بندش سے کے الیکٹرک اور فراہمی آب کی قلت سیواٹر بورڈ نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر واٹر ہائیڈرینٹس اور پمپنگ اسٹیشنز پر پانی پانی کی پکار کرتے شہری پہنچ جاتے ہیں اور شدید احتجاج کا راستہ اختیار کر کے پانی کی بحالی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔

ضلع غربی میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے بلدیہ، سرجانی، اورنگی، نیوکراچی اور سائیٹ کے مکین اب پانی کی عدم فراہمی اور واٹر بورڈ کی جانب سے مناسب متبادل انتظام نہ ہونے پر سخت نالاں ہیں ۔ پانی کی عدم فراہمی سے شہریوں میں عدم برداشت اپنے عروج پر پہنچتا جا رہا ہے اور شہر کیلئے یہ اچھی خبر نہیں ہے کسی بھی وقت یہ لاوا پھٹا تو نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ کراچی کے کئی علاقوں میں پردہ دار خواتین بھی پانی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی دکھائی دے رہی ہیں جو ان کے گھر کے مردوں سے برداشت نہیں ہو رہا ہے اور ان کے اندر اداروں اور حکومت کیلئے منفی جذبات دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔

لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل، ملیر، منظورکالونی، نیوکراچی و دیگر علاقوں سمیت بلدیہ ٹان، سرجانی اور اورنگی ٹان کے کئی سیکٹرز ایسے ہیں جہاں بمشکل 15سے 20 دن میں ایک دن پانی آتا ہے اور یہ طویل المدتی پانی کی فراہمی کا دائرہ کار شہر کے دیگر حصوں تک پھیلتا جا رہا ہے قانونی طور پر واٹر بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ جن علاقوں میں لائینوں کے ذریعے پانی دستیاب نہیں ہے ان علاقوں میں پانی ٹینکرز یا دوسرے متبادل ذریعوں سے فراہم کیا کرے جوکہ زبانی دعوؤں سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے ۔

مفت ٹینکر سروس اور ہائیڈرینٹس کراچی کے متاثرہ علاقوں کو پانی کی ضروریات فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں،ہائیڈرینٹس لبالب پانی سے بھرے رہتے ہیں جہاں سے پانی ٹینکر مافیا بھر بھر کر چاندی کو سونا بنانے میں مصروف ہے ٹینکر کے مقرر کردہ نرخوں کا مذاق بنا دیا گیا ہے ان تمام وجوہات کی وجہ سے کشیدگی بڑھ رہی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی میں آج بھی ایسے علاقے ہیں جہاں پانی کی کمی کا تصور بھی نہیں ہے جس سے واٹر بورڈ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں جن میں کراچی کے صنعتی زونز سرفہرست ہیں جہاں نہ کل پانی کی کمی تھی اور نہ ہی آج کوئی کمی ہے کیونکہ وہاں واٹر بورڈ کے مبینہ کرپٹ افسران اپنے ذاتی مفادات کی پاداش میں بھاری نذرانوں کے عوض پانی کی بلاتعططل فراہمی جاری رکھے ہو ئے ہیں ۔

شہریوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت اربابِ اختیار سے اپیل کی ہے کہ وہ شہر میں فراہمی آب کے دن بدن شدت اختیار کرتے مسئلے پر قابو پانے کے لئے فوری طور پر موثر حکمت عملی ترتیب دیں اور واٹر بورڈ میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی کاروائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں اور شہرقائد کی عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنے بنیادی حقوق بھیگ کی طرح نہیں مانگے جاتے ہیں ،سوال کرنا ہوگا کہ ہمارے گھروں کے لیے پانی کا بحران ہے تو سرکاری وغیرسرکاری،بیوروکریسی ،ہرطرح کی اشرافیہ ،بلدیاتی اداروں سمیت ہرادارے کے لیے یہ بحران کیوں نہیں ہوتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں