The news is by your side.

اردو سندھی تنازعہ‘ مسئلے کا حل کہاں چھپا ہے؟

سلیم احسن – یو اے ای


سندھ میں مقامی اور غیر مقامی یا سندھی اور مہاجر کا مسئلہ تقسیم کے کچھ عرصہ بعد ہی شروع ہوگیا تھا ۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ مہاجروں کو سندھیوں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے بہت کچھ کرنا چاہیے۔ اس کی نشان دہی لوگ کرتے رہتے ہیں اور میں ان سب باتوں سے متفق ہوں۔ یہ کہہ دینے کے بعد میں اس بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

اگر مہاجروں کے پاکستان میں ضم ہو جانے کے حوالے سے دیکھا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ پنجاب اور اندرون سندھ میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یو پی، سی پی، بہار اور حیدر آباد دکن سے آنے والے لوگ ان جگہوں میں اس طرح رچ بس گئے کہ ان کی اولاد روانی سے پنجابی اور سندھی زبانیں بولتی ہیں، بلکہ اب تو ان کے اردو لہجے میں ان زبانوں کی چاشنی بہت واضح محسوس ہوتی ہے، اور یہ بہت اچھی بات ہے۔

مسئلہ صرف کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے ایک آدھ دیگر بڑے شہرمیں ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں جہاں اور جب جب اردووی لوگ باقائدہ معاشروں میں آباد ہوئے وہ خوشی سے، یا مجبوراً اس معاشرے میں ضم ہو گئے اور وہاں کی زبان اپنا لی۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ آخر ان شہروں میں کیا ہوا کہ مہاجران میں آباد ہونے کے بعد سندھیوں میں ضم نہیں ہوئے اور انہوں نے پنجاب اور اندرون سندھ میں بسنے والے مہاجروں کی طرح سندھی زبان کو خوش دلی سے کیوں نہیں اپنا لیا۔

کراچی میں خاص طور پر، اور شاید حیدرآباد وغیرہ میں بھی صورت حال مختلف کیوں رہی؟ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ یہ صورت حال ماضی قریب میں پیدا نہیں ہوئی ہے، بلکہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی پیدا ہو گئی تھی اور اس کی وجوہات جاننے کے لیے اس زمانے کے حالات کو مد نظر رکھنا پڑے گا۔ یہاں ایک قباحت یہ ہے کہ ہمارے سندھی بھائی موجودہ غیر تسلی بخش صورت حال کو صرف آج پائے جانے والے زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، اور وہ ستر سال پہلے کی صورت حال یعنی قیام پاکستان اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی ہجرت کے زمانے کے مخصوص حالات کو یا تو جانتے نہیں ہیں، یا جان بوجھ کر ان کا ذکر نہیں کرتے۔

آزادی سے پہلے سندھ کے بڑے شہروں میں بڑے مسلمان وڈیروں کے بنگلے ضرور ہوتے تھے، مگر با اثر اور مراعات یافتہ طبقہ اور متوسط طبقہ زیادہ تر سندھی ہندوؤں پر مشتمل تھا اور ان شہروں میں اکثریت بھی ان ہی کی ہوا کرتی تھی، مسلمان سندھیوں کی نہیں۔ کراچی میں تو پارسی بھی بڑی تعداد میں رہتے تھے۔

آزادی کے بعد وہ سندھی ہندو اور پارسی ہجرت کر کے بھارت چلے گئے اور یہ شہر عملاً خالی ہو گئے تھے، یعنی وہ گھوسٹ ٹاؤن بن کر رہ گئے۔ ان کے جانے سے پیدا ہو جانے والے خلا کو یو پی، سی پی، بہار اور حیدر آباد دکن سے آنے والے مہاجروں نے آ کر پر کیا۔ اس طرح مہاجرین ان شہروں میں اکثریت میں ہو گئے۔ جب وہ ان شہروں میں اکثریتی آبادی بن گئے تو وہ کم از کم اپنے شہر کی حد تک اقلیت میں ہونے والی سندھی آبادی اور اس کی ثقافت میں کیسے ضم ہوتے؟ قطرے دریاؤں میں ضم ہوتے ہیں، دریا قطروں میں نہیں۔ یوں ان شہروں کا ماحول اردووی لوگوں کے ماحول کے مطابق ڈھل گیا۔

یہ درست ہے کہ کراچی شہر کے لیے فراہم کیا جانے والا پانی، اس کی آبادی کے استعمال کے لیے سبزیاں، پھل، گوشت، آٹا دالیں وغیرہ یا تو آتی ہی اندرون سندھ سے تھیں اور ہیں، یا اندرون سندھ سے گزر کر آتی ہیں، مگر ان چیزوں کے حصول کے لیے خود کراچی والوں کو اندرون سندھ نہیں جانا پڑتا، بلکہ ایک نظام کے تحت یہ چیزیں کراچی کے شہریوں کے لیے اس شہر کے بازاروں تک پہنچائی جاتی ہیں، جہاں ان چیزوں کے خریدنے کے لیے انہیں سندھی زبان آنا ضروری نہیں، وہ اپنے قصائی سے، دھوبی، پرچون کی دکان والے، کپڑا بیچنے والے، درزی، بس کنڈکٹر سے آرام سے اردو میں بات کر سکتے تھے۔ یوں ان کے ان شہروں میں آباد ہونے کے فوراً بعد سے لے کر آج تک ایسی صورت حال کبھی نہیں ہوئی کہ سندھی نہ آنے کی وجہ سے کراچی میں ان کا کوئی کام رکا ہو۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مہاجر کراچی میں قیام پاکستان کے بعد آئے تھے۔ جس وقت وہ کراچی آئے اس وقت کراچی صوبۂ سندھ کا حصہ نہیں تھا بلکہ اسے 14 اگست 1947 کو سندھ سے نکال کر پاکستان کا دار الحکومت بنا دیا گیا تھا۔ اس حساب سے کراچی میں آباد ہونے والے مہاجرین صوبۂ سندھ میں نہیں،، وفاقی دار الحکومت میں آ کر بسے تھے۔

اس کے بعد 22 نومبر 1954 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے پاکستان میں ‘ون یونٹ’ متعارف کروایا، جو بعد میں 14 اکتوبر 1955 کو نافذ کر دیا گیا۔ اس انتظام کے تحت پاکستان کے ‘مغربی بازو’ کے تینوں صوبوں یعنی سندھ، “مغربی پنجاب” اور شمال مغربی سرحدی صوبہ ( اس وقت بلوچستان موجودہ دور کے صوبۂ بلوچستان کی طرح باقائدہ صوبہ نہیں ہوتا تھا؛ اس میں شامل تمام ریاستوں جیسے بہاول پور، دیر، خیر پور، قلات، مکران وغیرہ؛ اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو ضم کر کے ایک صوبہ بنا ریا گیا جس کا نام ‘مغربی پاکستان’ رکھا گیا۔ اس نئے صوبے کا دار الحکومت لاہور تھا۔ یوں 22 نومبر 1954 کو ‘سندھ دھرتی’ تو اپنی جگہ باقی رہی لیکن سندھ نامی صوبہ باقی نہیں بچا۔ اسی طرح پاکستان کے ‘مشرقی بازو’ کا نام، جو پورا ایک ہی صوبہ تھا اور جس کا نام ‘مشرقی بنگال’ ہوتا تھا، تبدیل کر کے ‘مشرقی پاکستان’ رکھ دیا گیا۔ اسی ون یونٹ کے دور میں 1958 پاکستان کا دار الحکومت کراچی سے منتقل کر کے عبوری طور پر راولپنڈی اور پھر اسلام آ باد لے جایا گیا اور آج تک وہاں ہی ہے۔

ون یونٹ کے انتظام کو صدر جنرل یحییٰ خان نے1 جولائی 1970 کو ختم کر کے پرانے تینوں صوبوں کی سرحدوں میں معمولی رد و بدل کر کے بحال کر دیا اور ساتھ ہی ‘بلوچستان’ نام کا ایک باقائدہ صوبہ بنا دیا۔

یوں، موجوہ صوبۂ سندھ 1970 میں قائم ہوا اور کراچی اس کا دار الحکومت بنا دیا گیا۔ اس حساب سے پاکستان بننے کے بعد کراچی صوبۂ سندھ میں پہلی بار 1970 میں شامل ہوا ہے، یعنی قیام پاکستان کے 23 سال بعد، اور ان 23 سالوں میں اس شہر کا ڈھب بیٹھ چکا تھا جو کہ مکمل طور پر غیر سندھی تھا۔ اس کا ڈھب ایسا بیٹھا ہے کہ لالہ شاہد خان آفریدی جو پختون ہے اور خاندانی اعتبار سے درہ آدم خیل سے تعلق رکھتا ہے، مگر خود کراچی میں پیدا ہوا اور کراچی میں پلا بڑھا؛ وہ اور اس کی بیٹیاں بالکل کراچی کے اردووی لہجے میں اردو بولتے ہیں۔

مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے سندھی بھائی اور باقی پاکستانی اس مسئلے کو سندھ صوبے کے مجموعی رقبے اور مجموعی آبادی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی کیلکولیشن اور بیانیے میں یہ پریکٹیکل صورت حال نہیں سامنے رکھتے کہ کراچی صوبۂ سندھ کا حصہ اور اس کا دارالحکومت ہوتے ہوئے بھی ایک طرح سے اپنی ذات میں انجمن ہے۔ اور اس کا عام شہری باقی سندھ پر مجموعی طور پر انحصار کرنے کے باوجود ذاتی حیثیت میں اندرون سندھ پرdependentنہیں ہے اور وہ اپنی پوری زندگی کراچی میں ہی رہتے ہوئے اور اندرون سندھ جائے بغیر بھی گزار سکتا ہے اور وہ اس بات سے اپنی زندگی میں کوئی کمی نہیں محسوس کرے گا۔ مگر اس کے باوجود وہ صوبۂ سندھ کا مستقل باسی ہے، چاہے وہ مانے یا نہ مانے؛ اور اسے اچھا لگے یا برا سندھ صوبے کے نفع اور نقصان سے وہ برائے راست متاثر ہو گا۔

یہ بات میرے سندھی بھائیوں کو اچھی نہیں لگے گی، لیکن اگر کراچی اور اس میں بسنے والے مہاجروں اور ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنا ہے تو ریاضی کے اصولsimple averageکے بجائےweighted averageکو استعمال کرنا پڑے گا۔

اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک ہاسٹل میں پانچ کمرے ہیں اور ہر کمرے میں پانچ پانچ لوگ رہتے ہیں۔ پہلے کمرے میں چار ہندو اور ایک عیسائی رہتے ہیں، جب کہ باقی چار کمروں میں ایک ایک ہندو اور چار چار عیسائی، یعنی پہلے کمرے کے مکینوں کا تناسب باقی چار کمروں سے الٹ ہے۔ اگر آپ سمپل ایوریج سے کام لیں اور پورے ہاسٹل کا ایک ساتھ حساب لگائیں تو ہندوؤں کا تناسب 32 فی صد اور عیسائیوں کا 68 فی صد بنتا ہے۔ اگر آپ اس حساب کتاب سے ہاسٹل کی پولیسی بنائیں تو پہلے کمرے کے مکینوں میں بہت بے چینی پھیلے گی کیوں کہ اس کمرے میں ہندو32 فی صد نہیں 80 فی صد ہیں۔ اس لیے مناسب رہے گا کہ پورے ہوسٹل کے لیے پولیسی بناتے وقت اس کمرے کے مخصوص حالات کی وجہ سے اس کے لیے خصوصی بندوبست کیا جائے۔

اس مثال میں میں نے جو اعداد و شمار استعمال کیے ہیں وہ صرف مثال کے طور پر اور حساب کتاب میں آسانی کے لیے لیے ہیں اور ان کا سندھ کی موجودہ آبادی اور اس میں سندھیوں اور اردوویوں کے تناسب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے سندھ میں اردووی لوگوں کا مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ ان کی آبادی کا تناسب پورے سندھ صوبے کی آبادی سے نہیں، بلکہ کراچی کی مجموعی آبادی اور اس میں ان کا تناسب دیکھیے۔ پھر صورت حال واضح ہوگی۔

دنیا کے کسی بھی ملک کے کسی بھی صوبے میں ان علاقوں کو الگ طریقے سے مینیج جاتا ہے جہاں مختلف علاقوں سے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آ کر بس جائیں۔ان شہروں کا مقابلہ ان کے صوبے کے دوسرے شہروں سے نہیں کیا جا سکتا جہاں کی آبادی کی غالب اکثریت اسی صوبے کی ہواس لیے کراچی کی صورت حال کا صحیح موازنہ ممبئی سے ہو سکتا ہے جو بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا دارالحکومت ہونے کے باوجود مہاراشٹر سے باہر کے لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے مراٹھی بولنے والا شہر نہیں رہا، بلکہ ہندی بولنے والا شہر ہو گیا ہے۔

اسی طرح کراچی کا موازنہ کلکتے سے بھی کیا جا سکتا ہے جو 1911 تک برطانوی راج کا دارالحکومت رہنے کی وجہ سے بنگالی سپیکنگ شہر نہیں رہا۔ وہ بھی ہندی بولنے والا شہر ہے اور بنگلور، جو بھارتی ریاست کرناٹک کا دارالحکومت ہے جس کی سرکاری زبان کنناڈا ہے، اب پورے بھارت کا آئی ٹی حب ہونے کی وجہ سے ہندی بولنے والا شہر بنتا جا رہا ہے۔

یہ ساری صورت حال آپ کے سامنے میں نے اس لیے رکھی ہے کہ آپ کراچی میں بسنے والے اردووی لوگوں کے حالات اور ان سے جنم لینے والی مخصوص ذہنیت کو جان سکیں، اور شاید احساس کر سکیں کہ یہ ذہنیت کیوں بنی۔

میں نے بات شروع کی تھی اس بات سے کہ اردووی لوگوں کو بہت کچھ کرنا چاہیے مگر تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اس لیے تھوڑی بہت کوشش سندھیوں کو بھی کرنی پڑے گی۔ سندھی بھائیوں کو بھی چاہیے کہ زمینی حقائق کا ادراک کریں۔ اگر وہ ٹھنڈے دل سے اور طیش میں آئے بغیر غور کریں تو انہیں صاف نظر آ جائے گا کہ جس طرح بلوچستان بلوچی اور پختون قوموں پر مشتمل دو قومی صوبہ ہے اور جس طرح خیبر پختون خوا میں پشتو اور ہندکو دو زبانیں بولی جاتی ہیں، اسی طرح آج کا سندھ ایک دو لسانی صوبہ ہے۔ یہ اچھی بات ہے یا نہیں ہے، یہ الگ بحث ہے؛ اور اسے نا پسندیدہ قرار دے دینے سے موجودہ صورت حال تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ اس لیے ان کے بڑوں کو چاہیے کہ اس حقیقت کو خوش دلی سے قبول کر لیں اور اپنی نئی نسل کو بھی سمجھائیں کہ وہ بھی زمینی صورت حال کو قبول کر لیں اور اردو کو صوبے کی دوسری زبان تسلیم کر لیں۔ اس سے صوبے کی دونوں مستقل آبادیوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی۔

میں اس سے ایک قدم اور آگے جاؤں گا۔ جب کبھی ملکی تہذیبوں کی نمائندگی ہو رہی ہو تو سندھ کے نمائندوں میں کم از کم ایک اردووی حلیے کا آدمی بھی ہونا چاہیے چاہے چار سندھی لوگ ہوں مگر ایک اردووی بھی سندھ کے نمائندگان میں شامل ہونا چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سندھی تہذیب سے نفرت کم کرنے اور اس کی اچھی چیزیں لینے میں اردووی لوگوں کا بھلا ہے، اسی طرح گنگا جمنا تہذیب کی چند اچھی چیزوں سے سندھیوں کا بھی بھلا ہوگا وہ جو فراز نے کہا ہے کہ

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں