تحریر: سائرہ فاروق
یوں تو میرا بنیادی موضوع غربت اور مختلف اشیا کی خریداری میں عوام کو ریلیف دینا ہے، مگر موسم کی مناسبت سے بات گرم کپڑوں اور لنڈا بازار سے شروع کررہی ہوں۔
خطِ غربت سے نیچے ہی نہیں خطِ غربت سے ذرا اوپر والے عوام بھی گرم کپڑے خریدنے کے لیے لنڈا بازار کا رخ کرتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ سردیاں بھی گزر جائیں اور بھرم بھی رہ جائے مگر افسوس ان استعمال شدہ کپڑوں پر ڈیوٹی میں اضافہ بھی غریبوں کو سردی سے بچانے اور ان کا بھرم رکھنے میں حائل ہے۔ یہ صرف موسمِ سرما اور گرم کپڑوں کی خریداری کا معاملہ نہیں بلکہ سیکنڈ ہینڈ کہلانے والی دیگر اشیا کی خریداری کا بھی معاملہ ہے۔ اس کی ایک مثال جوتے اور چپلیں ہیں جو غریب اور قلیل تنخواہ پانے والا بھی ان بازاروں سے خرید کر استعمال کرتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گرمی ہو یا سردی اس میں شدت اور بارشوں میں تیزی آگئی ہے۔ بدلتا موسم کسی نہ کسی طرح رہن سہن، اوڑھنے بچھونے، کھانے پینے پر اثر انداز بھی ہو رہا ہے جب کہ عوام کی قوتِ خرید بہت کم ہو چکی ہے۔ ایک سوال ہے کہ استعمال شدہ کپڑوں پر درآمدی ٹیکس سے سرکاری خزانے میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے؟ کیا یہ اور اس قسم کے دیگر اقدامات سے کوئی بڑا فائدہ ہوا ہے۔ عالمی اداروں کا قرض غریب کی اترن کھینچ کر ہی ادا کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا زندہ معاشروں میں حکومتی خزانہ بھرنے کا ایک یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
حکم راں طبقے کے تو عام نوکر بھی شاید لنڈا بازار کا رخ نہ کرتے ہوں مگر غریب کے بچے کی کم زور چھاتی انہی کپڑوں میں سانس لیتی ہے۔ کیا متعلقہ ادارے اس بات سے اتنے ہی انجان ہیں؟ اگر آپ عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں مخلص ہیں تو کئی دوسرے اقدامات کے ساتھ سرد موسم کے استعمال شدہ کپڑوں پر ڈیوٹی میں کمی بھی کریں۔
ریاست تو کسی ماں کی طرح مہربان ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں یوں تو تمام اولاد برابر ہوتی ہے لیکن وہ اپنے کسی لحاظ سے کم زور بچے کی زیادہ فکر کرتی ہے۔ انصاف کے تقاضے نبھاتے ہوئے وہ اپنے محروم اور کم زور طبقےکا زیادہ خیال رکھتی ہے اور اس کی شکایتوں کا بروقت ازالہ کرتی ہے۔ ایک ریاست کی کام یابی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ مساوی تقسیم پر یقین رکھتی ہے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے۔
کیا ریاست ماں کا کردار ادا کر رہی ہے؟ عمران خان کا احساس پروگرام، ریلیف کے حوالے سے دوسرے اقدامات اور منصوبے، کرپشن اور لٹیروں سے نمٹنے کا عزم اور اس حوالے سے مسلسل کوششیں یقینا قابلِ ستائش ہیں۔ حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے سٹیزن پورٹل پر عوامی شکایات کے حوالے سے غیرسنجیدگی کا نوٹس لیا ہے جو خوشی کی بات ہے۔ مگر افسوس کہ اس معاشرے کے ہر شعبے پر بے حسی طاری ہے اور مفاد پرستی نے ہمیں کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہاں ہمیشہ طاقت ور کو کام یابی ملی، اسے حکومت اور اختیارات ملے اور ہر طرح نوازا گیا جب کہ کم زور کو مات در مات ہوئی!
حکومتیں اس پسے ہوئے طبقے کی کمی کو اپنے اقدمات سے محرومی میں تبدیل کرتی چلی گئیں جو کسی ریاست کے بنیادی وظائف کے خلاف اور اس کے مقاصد کی صریحاً نفی ہے۔
انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ سماجی رتبے، نام و نسب اور عہدوں سے ہٹ کر، اختیار اور طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر معاشرے کے غریب طبقے کی مدد کی جائے اور سب سے یکساں سلوک کیا جائے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں غریب نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا کھا سکے بلکہ سرد موسم کے کپڑے بھی لے سکے کہ پیٹ میں روٹی اور تن پر کپڑا بنیادی ضرورت ہے۔
ملک میں اس وقت کرپشن کے خلاف اور عوام کا پیسا لوٹنے والوں سے نمٹنے کے لیے حکومتی اداروں کی کوششوں کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت ایسے اقدامات بھی کرے جس میں دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے، کوئی ایک خاندان کئی خاندانوں کی تقدیر کا مالک نہ بن بیٹھے، ورنہ عام آدمی کا احساسِ محرومی اس حد تک بڑھ سکتا ہے کہ ریاستی اداروں سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔