تحریر: سائرہ فاروق
والدین کی اجازت سے شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کی وہ ملاقات جس کا مقصد ایک دوسرے کے بارے میں جاننا ہو یا یہ خواہش کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں، بات چیت سے مزاج اور عادت کا اندازہ کر لیں، ممکن ہے وہی ملاقات ایک ایسے بگاڑ کو جنم دے جو آگے چل کر ہمیشہ کے لیے دوری کا سبب بنے.
دراصل خرابی وہیں سے شروع ہوتی جب دونوں میں سے ایک فریق محدب عدسے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو، بڑا کر کے دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ دورانِ گفتگو ہم ایک شبیہہ بنا لیتے ہیں یا رائے قائم کرلیتے ہیں جو پختہ ہوتی ہے. بعض اوقات لڑکا بات چیت میں حاکمانہ مزاج کا لگتا ہے اور اس کے سامنے دوسرے کو اپنا آپ کسی ماتحت سا محسوس ہوتا ہے۔ یا یوں لگتا ہے کہ آپ کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ بہ طور سائل کسی معاملے یا موضوع پر مکالمہ کم، شخصی حاکمیت اور بالا دستی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور یوں گھٹن کا احساس بھی بڑھتا ہے۔
ایسے حاکمانہ مزاج اور خود مختار ہونے کا احساس دلانے والی شخصیت کے بارے میں عمومی، خصوصی رائے کبھی اچھی نہیں بنتی۔ لڑکیاں اس سے متنفر ہوتی ہیں، مگر دوسری طرف لڑکے کی اچھی جاب، خاندانی شرافت وغیرہ کا ڈھول جس طرح پیٹا جاتا ہے اس کے بعد انھیں بولنے یا رشتہ مسترد کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
تب تذبذب اور کشمکش کے ساتھ ایک لڑکی کسی کی زندگی میں شامل تو ہو جاتی ہے، مگر محدب عدسہ اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولتی اور اس کی مدد سے صرف خامیاں اور متنازع باتیں ہی نظر آتی ہیں۔ اگر بے جا روک ٹوک اور جائز و ضروری آزادی بھی کسی کے حاکمانہ مزاج کی زد میں ہو تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ رشتہ اور تعلق شکوک و شبہات اور خدشات کی گرد سے دھندلانے لگتا ہے اور پہلی ملاقات میں جو تاثر قائم ہوتا ہے، وہ ہر موقع پر، ہر معاملے میں آگے آجاتا ہے۔ تب وہ محدب عدسہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے لگتا ہے۔
شادی سے پہلے اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے تحفظات لاحق ہوتے ہیں۔ خدشات دونوں طرف ہوتے ہیں۔ جہاں لڑکی تیز ہو، سوشل ہو، وہاں لڑکا ضرور خائف ہوتا ہے، کچھ بے یقینی سی ہوتی ہے کہ کہیں کسی مقام پر ساتھ چھوڑ سکتی ہے یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ الغرض منفی باتیں ہی فریقین کا احاطہ کیے رکھتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی بار ایسی باتیں آزمانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ کبھی آزمائش بھی مقصود ہوتی ہے، تو کبھی مان بھی ہوتا ہے۔ یہ عام مشاہدہ اور اسی لیے ہر بار منفی انداز سے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ کسی بھی معاملے میں غور اور حالات و واقعات کا باریکی سے جائزہ لینا چاہیے۔
آپ دیکھیں کہ محبت کی شادی کرنے والے جنھیں ایک دوسرے کی پسند ناپسند، سوشل لائف اور دیگر تمام باتوں کا علم ہوتا ہے، زبردست ذہنی ہم آہنگی کے بعد بھی اپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف بات چیت کر لینے سے اور ایک دو ملاقاتیں کر کے مزاج اور عادات کا اندازہ لگانے سے زندگی کا یہ سفر محفوظ اور پائیدار نہیں بنایا جاسکتا۔ ہاں، کسی کے بارے میں اور کسی حوالے سے بھی اپنی رائے کو حتمی نہیں کر لینا چاہیے، کیوں کہ کسی میں بھی بدلاؤ ضرور آتا ہے، مگر اس میں وقت لگ سکتا ہے۔ مگر ہمیں جانے کیوں عجلت رہتی ہے اور پھر سب کچھ بکھر جاتا ہے۔
زندگی میں ساتھ رہنے سے کبھی کسی موڑ پر خوب صورتی کا احساس بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ ہم میں سے اکثر خود کو بدلنے یا زندگی کے رنگوں میں ڈھلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ گویا ہم زندگی کو صرف اپنی عینک سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں جو ایک غلط روش ہے۔
شادی سے پہلے محبت ہو یا نہ ہو، شادی ہو جائے تو رشتے میں احترام خود بخود پیدا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کا احساس بھی۔ اسی کے ساتھ بھروسا اور اعتبار اس تعلق میں خود اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور یوں ہر جائز حق اور آزادی آپ کو حاصل ہو جاتی ہے۔
سو تعلق کو سمجھنے اور رشتوں کو نبھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے وقت دینا چاہیے۔ دوسرے کے بارے میں فوری رائے قائم کرنے اور کسی بھی معاملے میں فوری ردعمل سے گریز کرنا چاہیے۔
ہمارے سماج میں لڑکیوں کو مشکل پیش آتی ہے، راستہ ہم وار اور سہولت و آسائش سے آراستہ بھی نہیں ہوتا، مگر وقت دیا جائے تو کوئی گنجائش نکل ہی آتی ہے اور رفتہ رفتہ سب کچھ معمول پر آجاتا ہے۔ ساتھ چھوڑنا، تعلق توڑنا بہت آسان، نبھانا بہت مشکل ہے، مگر جب کچھ طے کر لیں تو سانس لی جاسکتی ہے۔