The news is by your side.

سیاسی پنچھیوں کی پرانے آشیانوں کی طرف اڑان!

نظامِ قدرت ہے یا پرندوں کی فطرت کہ صبح ہوتے ہی رزق کی تلاش میں اپنے گھونسلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس دوران یہ پنچھی کبھی اس ڈالی تو کبھی اُس ڈالی چہچہاتے پھرتے ہیں لیکن جیسے ہی شام ڈھلنے لگتی ہے تو اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب اڑان بھر لیتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی آج کل ملکِ خداداد پاکستان کی سیاست میں ہورہا ہے۔ گو کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، لیکن اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کے لیے یہ ضرور نیا کھیل ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کے سیاسی افق پر شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں اور جیسے جیسے یہ سائے بڑھ رہے ہیں پنچھیوں نے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ملک میں ایک طرف تو اپوزیشن نے سیاسی ماحول گرم کر رکھا ہے، اور دوسری جانب حکومتی صفوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوچکی ہیں۔

وفاقی دارُالحکومت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر کوئی ہر پل کسی نئی خبر کی امید لگائے بیٹھا ہے۔

بلاول نےعوامی لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑا تو سیاسی ہوائیں تیز تر ہوگئیں گو کہ پی ڈی ایم نامی اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد گزشتہ دو سال سے حکومت کے خلاف متحرک رہا، لیکن کس طرح، اس سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔

اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی اس وقت آئی جب پی پی کی تحریکِ عدم اعتماد کی تجویز پر ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے ہامی بھری۔ گو کہ شہباز پہلے ہی اس فارمولے سے راضی تھے لیکن بڑے بھائی کی رضامندی نے گھڑی کی سوئی کو روکا ہوا تھا، لیکن گرین سگنل ملتے ہی اپوزیشن کے دَم میں دَم آیا۔ اور اب متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں تحریکِ عدم اعتماد بھی جمع کراچکی ہے جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اپنے پَر پھیلانا شروع کر دیے ہیں۔ اس تحریکِ عدم اعتماد پر ہزیمت کون اٹھاتا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن کہا جارہا ہے کہ شیروانیاں سلوانے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

سیاست امکانات کا نام ہے جس میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا۔ ملک ان دنوں جس سیاسی صورت حال سے دوچار ہے اور جس طرح سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے ہاں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آنے والے چند روز اس حوالے سے دھماکا خیز ثابت ہوں اور آج کے اتحادی کل کے مخالف بن جائیں۔

پنچھیوں کی اڑان میں یہاں سب سے پہلے بات کریں اب سے کچھ وقت پہلے تک وزیراعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن کی۔ چند ماہ قبل تک وہ وزیراعظم کے ترجمان اور رفیقِ خاص تھے۔ ہر دوسرے دن کسی ٹی وی شو میں وزیراعظم اور حکومت کا دفاع کرتے نظر آتے تھے لیکن پھر کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے پرانے سیاسی آشیانے کی جانب اڑان بھرنے کے لیے پہلے تو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، پھر بلاول بھٹو کی لاہور آمد پر دوبارہ پی پی پی میں شمولیت کا اعلان یہ کہہ کر کیا کہ وہ پہلے پی ٹی آئی کو عوامی جماعت سمجھتے تھے۔

بلاول نے بھی ندیم افضل کو یہ کہہ کر خوش آمدید کہا کہ پیپلز پارٹی تو آپ کا پرانا گھر ہے، ندیم افضل چن جو پی ٹی آئی میں آنے سے قبل پی پی پنجاب کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے، نے 19 اپریل 2018 میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ تقریباْ چار سال بعد وہ پی ٹی آئی کی شاخ سے اڑ کر پرانے گھونسلے میں جا بیٹھے ہیں۔

ان کی پی ٹی آئی میں آمد اور روانگی کا وقت دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی آنکھیں 2018 میں چڑھتے سورج کی چکا چوند سے خیرہ ہوگئی تھیں اور 2022 میں بظاہر ڈوبتے سورج نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

پی ٹی آئی کے اب تک بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند جو اپنی پارٹی سے ناراض ہیں، نے رواں ماہ کے آغاز میں بلوچستان کی وزارتِ تعلیم سے استعفیٰ دیا اور پھر ان کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران یار محمد رند سابق صدر آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرچکے ہیں اور دونوں ملاقاتوں میں ہی تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی ہے لیکن ان کا اب تک تو یہی کہنا ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا فیصلہ وقت آنے پر کریں گے۔

یہاں اگر کراچی سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر لیاقت حسین کا ذکر نہ کیا جائے تو کہانی ادھوری رہے گی کہ انہوں نے بھی حال ہی میں بانی ایم کیو ایم کو برطانوی کیس سے بریت پر نہ صرف مبارکباد دی بلکہ ایک تقریب میں انتہائی ڈھٹائی سے کہہ بھی دیا کہ عمران خان میری پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن میرے اصل قائد تو بانیٔ متحدہ ہی ہیں۔ ان کا یہ بیان ان کی اگلی منزل کا صاف پتہ دے رہا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے 8 اراکین قومی اسمبلی نے بھی ن لیگ کے گھونسلے میں اڑان بھرنے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والوں میں نصر اللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسان، راجا ریاض، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل ہیں۔ گو کہ ان میں سے کئی نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن معاملہ وہی ہے کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔‘‘

حکومتی پارٹی میں بغاوت میں سب سے بڑا معاملہ جہانگیر ترین گروپ کا ہے جو پہلے ہی دو درجن سے زائد اراکین قومی وصوبائی اسمبلی پر مشتمل ہے لیکن اس کو مزید تقویت گزشتہ دنوں عمران خان کے ایک اور قریبی ساتھی علیم خان نے ترین گروپ میں شمولیت اختیار کر کے دے دی ہے۔ اس گروپ کے اراکین مسلسل اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں ہیں جب کہ گروپ سربراہ جہانگیر ترین اور علیم خان لندن میں ہیں، جن کی تحریک عدم اعتماد سے قبل آمد متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق علیم خان نے لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ’’چوری چھپے‘‘ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کو چوری چھپے اس لیے کہا گیا ہے کیوں‌ کہ علیم خان کو نواز شریف کی رہائش گاہ میں عقبی دروازے سے لے جایا گیا۔ اس اہم ملاقات سمیت ملک میں ہونے والی ملاقاتوں کی تصدیق بھی ن لیگ کے ایک راہ نما کرچکے ہیں۔

اس تمام تر صورت حال کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ مسلسل اپوزیشن کے لیے سخت ہے اور ان کی زبان انگارے برسا رہی ہے۔ انہوں نے متحدہ اپوزیشن کو تین چوہوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو ہی پتہ ہے کہ عمران خان کی نظر میں یہ تین چوہے کون ہیں جس سے لگتا ہے کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے حوالے سے پرامید ہیں۔ کیونکہ کئی اپوزیشن اراکین کی بھی حکومت سے آن ملنے کی اطلاعات ہیں۔ اور ان کے وزرا بھی جوش و خروش سے مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے سارے دعوے ڈرامے ہیں۔ ان کے پاس عدم اعتماد کے لیے نمبر گیم پورے نہیں ہیں اور ہم انہیں آخر وقت میں سرپرائز دیں گے۔

موجودہ حالات میں حکومت کے لیے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے تو وہ اپوزیشن نہیں بلکہ ناراض پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتیں جن میں ق لیگ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت سے وزیراعظم گزشتہ چند دنوں میں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ اتحادیوں نے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے جو حکومت پر لٹکتی تلوار کے مترادف ہے۔

مذکورہ جماعتوں کی اپوزیشن راہ نماؤں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں کے بعد ان اتحادی جماعتوں کا رویہ کچھ کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہورہا ہے۔ بالخصوص ق لیگ اور ایم کیو ایم نے اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت شروع کردی ہے کہ مزید حکومت میں رہا جائے یا نہیں یا عدم اعتماد میں کس کا ساتھ دیا جائے۔

تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد اپوزیشن کی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں، پی پی کا عوامی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے، گزشتہ روز جے یو آئی کی ذیلی تنظیم حرکت الانصار کے رضاکار پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوگئے تھے جن کے خلاف وفاقی پولیس کو آپریشن کرنا پڑا تھا اور فضل الرحمٰن نے پہلے خود گرفتاری دینے کا اعلان پھر اپنے کارکنوں کو ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے شاہراہیں بند کرنے حکم دیا تھا جس سے فضل الرحمٰن کے جارحانہ رویے کا اظہار ہوتا ہے لیکن ایسے وقت میں جب 22 مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس ہونا ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان یہ کھینچا تانی کسی ایسے ناخوش گوار واقعے کا سبب بھی بن سکتی ہیں جس پر کل کا مؤرخ آج کے سیاستدان چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن سے ان کا تعلق ہو، انہی کو موردِ الزام ٹھہرائے گا۔

ملکی حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر معاملے حل نکالیں، اس سے قبل کہ دیر ہوجائے یا کہنا پڑے، ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘

شاید آپ یہ بھی پسند کریں