The news is by your side.

کاشف غائر اور بدلی ہوئی کلاسیکیت

عام طور سے جب، کسی شاعر کے کلام پر بات کی جاتی ہے، ابتدا میں یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاعری کیا ہے، شعر کس طور سے اثر کرتا ہے، وغیرہ۔ ایسی ہر کوشش پر سہولت سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، کیوں کہ شاعری کیا ہے، اس کی وضاحت کے بعد ایک اور وضاحت اور اس کے بعد ایک اور وضاحت کی جاتی ہے، اور کوئی بھی وضاحت پوری طرح سے مطمئن نہیں کرتی۔

غالب سے لے کر آج کے ظفر اقبال تک غزل نے اتنے پینترے بدلے، اتنی قلابازیاں کھائیں، اتنے رنگ دکھائے، اتنے معانی پیدا کیے؛ کہ عام طور سے شعر کے لیے اب ایک پرو-کلاسیکی صورت میں ‘پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے’ والی کشش یا غنائیت پیدا کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ فنی لوازم ہی میں نہیں، بلکہ معنوی دائرے میں بھی کلاسیکیت بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ شعر میں کئی تہوں، پرتوں کا جو وصف تھا، اب معنی کی سطح پر آبجیکٹ کے ایک لیکن زیادہ آزاد معنی کی صورت میں رونما ہونا پسند کرتا ہے۔

کاشف حسین غائر کا یہ شعر دیکھیے:

میں اس درخت کو کچھ اور دیکھ لوں غائر
تھکن کا کیا ہے، کہیں بھی اتار سکتا ہوں

درخت کے وجود سے سائے کا معنی جوڑنے کا کلاسیکی رویہ غائر کے اس شعر میں زد پر آیا ہوا ہے۔ تھکا ماندہ مسافر درخت کی چھاؤں پاتا ہے تو اس کے بدن کو ملنے والا سکون شاید ویسا ہی ہو جس طرح ایک کلاسیکی زبان زد عام شعر واہ واہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا غائر کا شعر کلاسیکی سوچ کو اس کی بنیاد میں منہدم کر کے، اسے نئے سرے سے ایک اور لیکن زیادہ حقیقی رخ میں استوار کرنے کی کوشش میں ہے؟ یہ شعر کہتا ہے کہ درخت کو اس کے سائے اور آدمی کی آرام کی طلب سے ہٹا کر بھی دیکھا جا سکتا ہے، ایک خوب صورت لہلہاتے وجود کے طور پر۔

اگر میں یہ کہوں کہ کاشف غائر کی شاعری میں ‘فطرت پسندی’ کا یہ عنصر خاصا پھیلا ہوا ہے، تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، میرا خیال ہے اس شاعری کے مطالعے کے وقت اس نکتے کو مد نظر رکھ کر زیادہ بہتر طور پر اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ دیکھیے نا، غائر معصومیت کو فطرت کے متوازی رکھ کر اپنے مشہور شعر میں دو الگ مناظر پر مبنی ایک کینوس ایسے تخلیق کرتا ہے جیسے فطرت کی سطح پر چیزیں ہم معنی ہوں:

اڑتا نہیں ہے شور مچانے کے باوجود
بچے کی سرخوشی کو پرندہ سمجھ گیا

اور فطرت کے ساتھ انسان کی ہم آہنگی کا یہ خیال کلاسیکی دائرے سے اتنا باہر نکل گیا ہے کہ مبالغہ آرائی کی شان دار مثال پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایک حد تک شعر کی اُس کشش کا معجزہ پیدا کیا ہے، جو کلاسیک کا خاصہ رہا ہے، دیکھیں:

اس بار تو وہ دھوپ کی یلغار تھی کہ بس
ہم اپنی چھاؤں لے کے شجر کی طرف گئے

انسان بھی ایک فطری وجود ہے، لیکن جب یہ کسی جگہ مل کر رہنے لگتے ہیں تو یہ فطری سے سماجی میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور سماجی عمل کی تکمیل میں انسانی وجود سے ہٹ کر بے جان چیزیں بھی بہت اہم کردار ادا کرنے لگتی ہیں، یوں اشیا ایک ثقافتی حیثیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر اتنے اثر انداز ہوتے ہیں کہ آدمی کو کبھی کبھی دکھ سکھ بھی مشترک معلوم ہونے لگتے ہیں۔ دراصل بے جان اشیا میں انسانی ہاتھ کی کاریگری اور فہم کا نتیجہ شامل ہوتا ہے، اس لیے کچھ عرصہ ساتھ رہنے پر آدمی خود اپنی ایک شبیہ کو ان اشیا میں دیکھنے لگتا ہے۔ کاشف غائر بھی اسی سطح پر اشیا کی ترجمانی کرتا ہے:

اشیا بھی گھر میں رہتی ہیں افراد کی طرح
افراد کی طرح کبھی اشیا کا دکھ سمجھ

اوپر جو میں نے پرو-کلاسیکی صورت میں کشش اور غنائیت پیدا ہونے کے امکان کو تقریباً ناممکن بتایا ہے، غائر کی تازہ کتاب ‘آسماں آنکھ اٹھانے سے کھلا’ میں اسے ایک اور شعر میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ مومن خان مومن کا ایک مشہور ترین شعر ہے:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

دیکھیں، غائر اپنی اس پرو-کلاسیک کوشش میں کہاں تک جاتے ہیں:

بہت سے لوگ مرے آس پاس رہتے ہیں
یہ اور بات مرے آس پاس،ایک نہیں

لیکن یہ مدِ نظر رہے کہ درخت والے شعر کے ضمن میں جس ‘کلاسیکی سوچ’ پر ضرب کاری کی بات کی گئی ہے، وہ اس معاملے سے مختلف ہے۔ بہرطور، کاشف غائر کی غزل اپنے مضمون اور پیش کش کے لحاظ پرو-کلاسیک ہی ہے، یہ اور بات ہے کہ ‘کلاسیکی سوچ’ پر وہ ضرب لگانے سے نہیں ہچکچاتے۔ میرا خیال ہے کہ اردو شاعری میں عمومی طور پر دیکھا جائے تو شعرا کے ہاں کسی خاص فکری نہج پر تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کا سوال ہر وقت تردیدی ثبوتوں کی زد پر ہوتا ہے۔ غائر کے ہاں کلاسیکی سوچ پر ضرب کاری والے نکتے کو دیکھیں، اور پھر اس شعر کا مطالعہ کریں:

سوال یہ ہے کہ ہم لوگ ایک کیسے ہوں
ابھی تلک تو ہمارے لباس ایک نہیں

یہ شعر ‘مقبول کلیشے’ سے بری طرح متاثر دکھائی دے رہا ہے، یا شاید قافیے کی ‘رغبت’ کا شکار ہے۔ یہ نہ صرف ثقافتی تنوع پر ضرب کاری ہے بلکہ ایک ایسی مرکزیت کی شدید خواہش پر مبنی ہے جو از حد استحصالی سوچ کا نتیجہ کہلایا جا سکتا ہے۔

تنہائی کو لے کر غائر نے جس طرح پرو-کلاسیکی تسلسل کا دامن تھام رکھا ہے، اس پر نگاہ کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ایک تو اوپر مومن والے مضمون پر مبنی شعر ہے، اس کے علاوہ کئی اشعار مزید ہیں، یہ بھی دیکھیں:

تنہائی جیسی شے کو سمجھنا محال ہے
لیکن جو تیری بزم میں بیٹھا، سمجھ گیا

لیکن میرا تجزیہ ہے کہ اچھے شاعروں کے ہاں اب بدلی ہوئی کلاسیکیت مروج ہو چکی ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا کہ شعر میں کئی تہوں، پرتوں کا جو وصف تھا، اب معنی کی سطح پر آبجیکٹ کے ایک لیکن زیادہ آزاد معنی کی صورت میں رونما ہونا پسند کرتا ہے۔ غائر سمیت کئی شعرا کے ہاں میں نے یہ چیز دیکھی ہے کہ فنی اعتبار سے شعر میں چونکا دینے والے معنوی تہوں کی بجائے رعایت لفظی اور تلازمے سے کام لیا جاتا ہے، لیکن کاشف غائر کے ہاں یہ وصف انفراد کے ساتھ بدلی ہوئی کلاسیکیت کو بلندی کی طرف لے جاتا نظر آتا ہے۔ اسے اس شعر میں دیکھیں:

کسی بھی چیز سے اس میں کمی نہیں آتی
اضافہ کرتی ہیں تیری کمی میں سب چیزیں

جب کوئی من چاہا وجود اپنی عدم موجودی کا احساس دلاتا ہے تو دل و دماغ میں تنہائی کی لے ابھرتی ہے۔ یہ احساس موسیقی کے نچلے سُروں کی مانند ہے، بدن میں ایسے سرایت کرتا ہے جیسے بدن کی نسیں ستار کے تار ہوں، ہر سُر پر ایک حسرت آگیں ٹھیس پورے بدن کو موسیقی خانہ بنا دیتا ہے۔ اب بھلا ایسے احساس کو دنیا کی کوئی اور شے کیسے کم یا ختم کر سکتی ہے۔ جتنی چیزیں مزید آتی ہیں، من چاہے وجود کے عدم کا احساس اور گہرا ہو جاتا ہے۔ تنہائی کی ایک اور سطح ‘اداسی’ ہے، ان دونوں کا تجزیہ کریں تو کہیں کہیں یہ کیفیات ایک دوسرے کے بے حد قریب آ جاتی ہیں، اور معلوم نہیں ہو پاتا کہ تنہائی نے اداس کر دیا ہے یا اداسی اتنی بڑھ گئی کہ تنہائی کے احساس میں ڈھل گئی۔ غائر نے اس صورت حال میں بھی ایک شان دار شعر کہا ہے جو اُن کے مشہور اور نمائندہ اشعار میں سرِ فہرست ہے:

نکلنا پڑتا ہے گھر سے اِسے نکالنے کو
مرے بغیر اداسی کہاں نکلتی ہے؟

بلاشبہ، غائر کی شاعری میں تنہائی کے استعارے نے کئی سارے نئے رنگوں سے روشناس کرایا ہے، ان کا ایک اور مشہور شعر تو بدلی ہوئی کلاسیکیت کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے پرو-کلاسیکی دائرے ہی میں ایک انوکھی معنویت منکشف کرتا ہے:

رات آتی ہے تو آتے ہیں کئی سائے یہاں
در کُھلا ہو بھی تو دن بھر نہیں آتا کوئی

اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ پرو-کلاسیکی دائرے میں کاشف کے ہاں معنوی تہ داری کا وصف بھی چلا آتا ہے۔ یہ پورا شعر ہی تنہائی کا استعارہ بنا ہوا ہے، اور اِس شاعری میں اِس خوبی کو اور مقامات پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی چیز سے اس میں کمی نہیں آتی، رات آتی ہے تو سایوں کی یلغار تنہائی کے احساس کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔

میں اپنی اس تحریر کا اختتام کاشف غائر کے پہلے مجموعے سے ان دو اشعار پر کرتا ہوں، پڑھیے اور لطف لیجیے:

شہر در شہر لیے پھرتے ہیں
راستے گھر نہیں جانے دیتے

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں