The news is by your side.

ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں