آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ ایک شعبہ ایسا ہے جہاں ہمارے سیاست دان ہمیں لے کر ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ جی داری سے مقابلہ کرنے نکلتے ہیں، اور یہ شعبہ ہے مہنگائی کا۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مہنگائی ہوگئی ہے دنیا میں، اور ہم دنیا کے پیچھے چل پڑتے ہیں، مہنگائی میں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے۔ ہمارے حکم راں ہمیں پیچھے نہیں رہنے دیتے، کہتے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں مہنگائی ہوگی تو ہمارے ہاں بھی ہوگی۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں گیس مہنگی ہو گئی ہے، پیٹرول مہنگا ہو گیا ہے، ادویات مہنگی ہو گئی ہیں، کھانے کا تیل مہنگا ہو گیا ہے۔
لیکن جب دنیا میں چیزوں کے دام بڑھ رہے ہوتے ہیں اور جب ہمیں ان کے پیچھے روانہ کر دیا جاتا ہے، تب عین اس لمحے وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان اقوام کی مجموعی معاشی حیثیت کہاں کھڑی ہے؟ وہاں عام آدمی کو کیا سہولتیں میسر ہیں؟ وہاں صارفین کے حقوق کتنے محفوظ بنائے جا چکے ہیں؟ جان و مال کی حفاظت کس سطح کی ہے؟ تعلیم و تفریح کے مواقع کی دستیابی کا تناسب کیا ہے؟ زندگی میں آگے بڑھنے اور تحقیق و ترقی کے مواقع کہاں تک دستیاب ہیں؟ غربت اور بھوک کس شرح سے پھیلی ہوئی ہے؟
وہ یہ نہیں بتاتے کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے والے آئین کی پامالی کا ریشو کتنا ہے؟ اور یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ جب حکم راں جھوٹ بولتا ہے، اور جب وہ جھوٹ کھل جاتا ہے اور جب کوئی حکم راں کرپشن کرتا ہے، اور اس پر محض الزام لگ جاتا ہے تو وہ حکم راں اخلاقی جرات کا کتنا مظاہرہ کرتا ہے؟
ہمارے حکم راں دنیا میں قیمتیں بڑھنے کا ہمیں ضرور بتاتے ہیں اور ہمیں ساتھ لے کر پوری ترقی یافتہ دنیا کے ساتھ مقابلے پر آ جاتے ہیں، لیکن نہیں بتاتے کہ اس دنیا میں عوامی نمائندے کا ذاتی وقار کتنا مہنگا ہوتا ہے، ان کی معمولی غلطی کتنی مہنگی ثابت ہوتی ہے، معمولی جھوٹ کی کتنی بڑی قیمت ادا کرتے ہیں، معمولی کرپشن کی ادائی پوری زندگی کی نیک نامی دے کر کی جاتی ہے۔
اور یہاں ہمارے دیس میں یہ ہمیں سماجی ترقی کے نام پر صرف خوش نما تقریریں دیتے ہیں، تعلیم و تحقیق کے نام پر ابتدائی سطح کے کالجز اور پہلے سے موجود کالجز کو یونیورسٹیز کا درجہ دے کر، اور ایک قدم آگے بڑھ کر ہمیں مزید صدیوں پیچھے دھکیلنے کے لیے صوفی ازم کی یونیورسٹی دیتے ہیں۔
جب ایک ترقی یافتہ دنیا کے ممالک کے لوگ اپنی حکومتوں، اپنی ریاستوں، اپنے آئین، اپنے حقوق کے حوالے سے کسی بھی کنفیوژن کا شکار ہوئے بغیر اپنے حکم رانوں کا ساتھ دیتے ہیں، اور وہ ممالک پھر عالمی اتحادوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو اس وقت ہمارے یہ حکم راں ہمیں آپس میں لڑوا رہے ہوتے ہیں، غیرت کے نام پر گالیوں کی ثقافت بو رہے ہوتے ہیں، پارٹی حامیوں کے ایسے جتھوں میں تقسیم کر رہے ہوتے ہیں جو ریاستی حق کو سمجھنے سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ اتنا کنفیوز کرتے ہیں کہ شہری کی حیثیت میں بھی پارٹی اور ریاست کی الگ الگ حدود کی تمیز کھو دیتے ہیں۔ کب پارٹی کی بات کرنی ہے اور کب ریاست کی، یہ ہمیں ہمارے حکم راں کبھی نہیں بتاتے؛ اور اس لیے نہیں بتاتے کیوں کہ یہ سب جان کر اور پا کر ہم واقعی ترقی کے سفر پر گام زن ہو سکتے ہیں، جہاں جاہل اور بدتمیز حکم رانوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، یہ وہاں گھستے بھی ہیں تو ٹرمپ اور مودی کی طرح ان کی قلعی اتر کر پوری دنیا میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔
لیکن ہاں، ہمارے یہ حکم راں ہمیں دنیا میں ہونے والی مہنگائی کا دیوانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے ضرور کھلے آسماں کے نیچے تپتی زمین پر لا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اور یہ ہمیں غیرت کا درس دینے بیٹھ جاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔