بچپن میں جب یہ سنتے تھے کہ “عید تو بچوں کی ہوتی ہے” تو حیران ہوتے تھے کہ جب بچوں کی عید ہوتی ہے تو بڑے کیوں مناتے ہیں؟ نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ اور نماز عید کیوں پڑھنے جاتے ہیں؟ لیکن جب بڑے ہوئے تو اس جملے کے مفہوم سے آشنا ہوئے۔ یقین آگیا کہ “عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور اب ہم بھی اپنے بچوں کو یہی کہتے ہیں کہ اصل عید تو بچو تمہاری ہے۔
آج ہم اپنے بچپن کی عیدوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کریں گے، بقول شاعر
میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے
تو جناب ہمارے بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نت نئے پکوان، سیر و تفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر عید کے وہ دن ہماری آج کی عید سے خاصے مختلف تھے۔
70 اور 80 کی دہائی میں جنم لینے اور بچپن کے خوبصورت دن گزارنے والوں کو یاد ہوگا کہ کیسے وہ عیدیں آج کی عید سے منفرد ہوتی تھیں۔ ہم جب بچے تھے تو آج کے بچوں ہی کی طرح بے تابی سے عید کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن انداز کچھ مختلف ہوتا تھا، روز امی سے پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے؟ اس طرح کے کئی سوال تو ہم کرتے تھے لیکن ساتھ ساتھ عید کی تیاری کچھ اس انداز میں کرتے تھے جو آج شاید ہمارے لیے ممکن بھی نہیں۔
مثلا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے روایتی عید کارڈز دینے کا رواج متروک ہی ہوچکا ہے۔ اب تو صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل سے عید مبارک کا پیغام، کوئی ایموجی یا ڈیجیٹل کارڈ بھیج کر یہ روایت بالکل روکھے پھیکے انداز میں نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچپن میں رمضان کا آغاز ہوتے ہی ہم اپنے دوستوں اور کزنز وغیرہ کو عید پر دینے کیلیے عید کارڈز کی خریداری شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے روزانہ دکانوں اور اس حوالے سے لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز (جی ہاں اس دور میں عید کارڈز فروخت کرنے کے خصوصی اسٹالز لگائے جاتے تھے) کے روز چکر لگایا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوشش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھے کارڈز کا انتخاب کریں۔ عموما اس وقت دور حاضر کے فلمی اداکار اور اداکاراؤں کے پوسٹ کارڈز پر مبنی عید کارڈز ہوا کرتے تھے جن کے ایک طرف تصویر اور دوسری جانب لکھنے کیلیے خالی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف پھولوں اور تہنیتی پیغامات کے ساتھ کارڈز بھی ہوتے تھے، اس دور میں کارڈز پر مبارک باد کے ساتھ بچکانہ اشعار بھی لکھ کر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا جن میں سے یہ دو تو بہت مشہور زمانہ رہے ہیں۔
گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
دوست سے دوستی توڑی نہیں جاتی
عید آئی ہے بڑی دھوم دھام سے
دوست اچھل پڑا سویوں کے نام سے
لیکن آج کا بچہ تو روٹی کے بجائے پزا کا دلدادہ ہے، سویوں کے بجائے نوڈلز، اسپیگٹیز اور پاستا اس کے من کو بھاتے ہیں جو کہ ہمارے دور میں ندارد تھے۔
خیر بات ہورہی تھی عید کارڈز کی تو اس دور میں محکمہ ڈاک کی جانب سے بھی عید کارڈز پوسٹ کرنے کیلیے مقررہ تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے دوستوں رشتے داروں کو ملک یا بیرون ملک عید کارڈز بھیجنے ہیں وہ مقررہ تاریخ تک کارڈز محکمہ ڈاک کو دے دیں تاکہ بروقت پہنچ سکیں۔ اس کے بعد لوگ پوسٹ آفس کے باہر گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ اس دور میں آج کی طرح کئی کئی کوریئر سروس موجود نہیں تھیں۔
جیسے جیسے دن گزرتے جاتے تھے ہمارا عید کے انتظار کے حوالے سے جنون بڑھتا جاتا تھا جو کہ آج کی نسل میں عنقا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری عید کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ نیا جوڑا، نیا جوتا اور اس کے بعد عیدی ملنا ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں عموما تہوار یا کسی شادی بیاہ میں ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے جبکہ آج اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اب تو جب دل چاہا نئے کپڑے بنالیے تو نئے کپڑوں کی وہ خوشی جو سال میں ایک بار ملنے پر ہمیں بچپن میں ہوتی تھی اور نئے کپڑے پہننے کا انتظار وصل یار کی طرح لگتا تھا، اس مزے سے آج کی نسل ناآشنا ہے۔
چاند رات پر رات بھر جاگ کر انتظار کیا جاتا تھا کہ صبح عید ہے نئے کپڑے پہنیں گے، پھر سب سے عیدی ملے گی تو اپنی مرضی سے چیزیں کھائیں گے اور خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے پروگرام ہم کئی کئی روز تک دوستوں یا کزنز اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بناتے تھے۔
ادھر چاند نظر آیا ادھر اُدھم مچ گئی، گھر میں امی اور دیگر بڑی خواتین صبح کے لیے شیر خرما اور دیگر پکوانوں کی تیاری میں جُت جاتیں اور ہم للچائی نظروں سے ہینگر میں ٹنگے استری شدہ نئے کپڑوں کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خود کو صبح اس نئے لباس میں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جو آج کے برعکس اس وقت پورا ماہ رمضان مذہبی لبادہ اوڑھے رکھتا تھا اور ایک ماہ تک گانے اور موسیقی پر پابندی ہوتی تھی لیکن چاند نظر آتے ہی اس پر بھی عید کے رنگ چڑھ جاتے تھے۔ خاص طور پر فریدہ خانم کا مشہور گانا “میں نے پیروں میں پائل تو باندھے نہیں” اور روشانے ظفر کا نغمہ ” فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا” ہر عید کی چاند رات کو کئی سالوں تک اتنی مستقل مزاجی سے نشر کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں بڑوں کو ان گیتوں کے بول تک ازبر ہوگئے تھے۔
صبح عید ہوگی کا انتظار کرتے کرتے امی کی پیار بھری سرزنش کے ساتھ سوجاتے تھے۔ صبح نماز عید کے لیے خاندان کے سب بڑے مرد اکٹھا ہوکر عید گاہ نماز کے لیے جاتے تھے اگر لوگ علیحدہ علیحدہ گھروں میں بھی رہتے تھے تو نماز عید کے لیے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور وہیں سے عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بغل میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے عیدگاہ کی طرف گامزن ہوتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بڑے جب نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کے تھیلوں میں گھر والوں کی جوتیاں جمع کرکے ان کی نگرانی کریں تاکہ وہ چوری نہ ہوسکیں۔
ادھر نماز عید ہوئی لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گھر واپسی ہوئی ادھر ہمیں اپنی عیدی کی فکر ہوئی۔ گھر آتے ہی ابو اور گھر کے بڑوں سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت عیدی کیا ہوتی تھی آج کے بچے جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ ایک روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حد ہے 10 روپے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ 50 یا 100 روپے ملے ہوں۔ اگر کسی کو 100 یا 50 روپے عیدی ملتی تو سمجھ لو پورے محلے میں اس کی شان بڑھ جاتی تھی۔ عیدی ملتے ہی ہم سب گھر سے رفوچکر اور عیدی خرچ کرنے کی فکر۔
آج کے دور میں جب بچے کولڈ ڈرنک، آئسکریم کے رسیا ہیں اور آئے روز اپنے والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کراتے ہیں لیکن ہمارے دور میں ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کیلیے عید کا انتظار کرتی تھی کہ عید ہی ایسا موقع ہوتا تھا جب ہم اپنی پسند یعنی کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دور میں بچوں کی عیدی میں ملنے والے پیسوں سے سے بڑی عیاشی کولڈ ڈرنک، آئسکریم یا میٹھا پان ہوتا تھا یا پھر گھر کے قریب لگنے والے بچوں کیلیے شغل میلے جن میں مختلف اقسام کے دیسی جھولے، رِنگ پھینک کر انعام جیتنے والی لاٹری یا اس جیسے ہی دیگر کھیل کود۔
عید کا سارا دن اسی ادھم چوکڑی میں گزر جاتا تھا اور رات ہوتے ہی تھکن کے مارے خوشی سے سرشار ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوجاتے تھے۔
ایسی ہوتی تھی ہماری تصنع و بناوٹ سے دور سادگی کے رنگوں سے لبریز خوشیوں بھری عید جس کا ذکر کرکے ہم بھی اپنے بچپن کی عیدوں میں کھوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ کاش یہ بچپن دوبارہ واپس آجائے لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیے کہ کبھی گزرا وقت بھی واپس آتا ہے اور دوبارہ اپنے مشینی دور میں واپس آگئے تاکہ اپنے بچوں کے لیے حقیقی معنوں میں عید کا اہتمام کرسکیں۔