The news is by your side.

کہاں گئے ن لیگ کے آزادی صحافت کے دعوے؟

ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو ڈیڑھ ماہ قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے ہی حسب روایت تو کہاں ہم کہاں گوکہ ماضی میں کسی کی بھی حکومت رہی تو اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو کسی حکومت نے برداشت نہیں کیا ہے لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے۔

آج ملک میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے بھائی کی جگہ چھوٹا بھائی وزیراعظم ہے لیکن پالیسیاں اب بھی ساری لندن سے بن کر ہی آرہی ہیں۔ کئی جماعتوں کے اتحاد سے بنائی گئی شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

مریم نواز کے الزامات اور دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں: اے آر وائی نیوز انتظامیہ

پاکستان میں آج ایک بار پھر صحافت کی زباں بندی کی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے ملک کے سب سے مقبول نیوز چینل اے آر وائی نیوز کی این او سی منسوخ کردی ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ ارض وطن ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے 75 برس کا ہونے جارہا ہے اور پوری قوم ملک کا 75 واں جشن آزادی منانے کے لیے زور وشور سے تیاریاں کر رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو ہی اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو یہ نہ مانے پھر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی بھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے اور ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو اقتدار ملنے سے قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے نظریں ایسی بدلی ہیں کہ تو کہاں اور میں کہاں والی بات ہوگئی ہے۔

ن لیگ کی حکومت جو پہلے ہی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کے سرکاری اشتہارات بند کرکے ملک کے اس سب سے بڑے معروف اور عوام چینل سے اپنی پُرخاش ظاہر کرچکی تھی لیکن دوبارہ ساجھے کا اقتدار ملتے ہی اس کی اے آر وائی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں تیزی آگئی۔ پہلے صرف چینل کی کیبل پر نشریات بند کی گئیں اور جب حسب منشا نتائج نہ نکلے تو اے آر وائی کی آواز کا مکمل گلا گھونٹنے کیلیے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے اس کا این او سی ہی منسوخ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے تمام قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ انتہائی اقدام کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے اس جابرانہ فیصلے سے 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار اور ہزاروں گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔

حکومت کے اس من مانے اور ماورائے قانون اقدام کی صرف ملک کے صحافتی اداروں نے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں حکومت کی اتحادی جماعتوں، ماہر قوانین سمیت مختلف طبقہ فکر کے افراد نے سخت مذمت کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام سویلین مارشل لا سے تعبیر کیا اور ایسے وقت جب پوری قوم نے جشن ٓزادی کی تیاریوں میں مصروف ہونا تھا اس صورتحال میں ملک بھر میں صحافتی تنظیموں سمیت عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج حکومت کا سیاہ کارنامہ بن کر دنیا بھر کے سامنے آرہا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے این او سی منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کے حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل بھی کردیا ہے لیکن نشریات بحال نہیں ہوسکی ہیں۔

شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ یہ مسلم لیگ نواز کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر دور اقتدار میں اپنے پیاروں اور ہمنوا درباریوں کو اپنے نام کی مناسبت سے نوازتی ہے لیکن مخالف اور آئینہ دکھانے والوں کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے کی جگہ چھوٹا بھائی برسراقتدار ہے لیکن پالیسیاں اب بھی لندن سے ہی بن کر آرہی ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں نواز حکومت کا ری کیپ جاری ہے اور انتقامی کارروائی کا کا بڑا ہدف تو اے آر وائی اور اس سے وابستہ صحافی ہیں لیکن جو بھی اس حکومت اور ن لیگ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ان کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

1999میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔
اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

گو کہ سابق ضیا دور، مشرف دور میں بھی آزاد صحافت کا گلا گھونٹا گیا لیکن ن لیگ کی اتحادی حکومت نے جس طرح یہ انتہائی اقدام کیا اس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ حکمراں طبقہ یاد رکھے کہ ماضی میں میڈیا اداروں کے خلاف اقدامات کرنے والے حکمراں اقتدار سے رخصت ہوئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور حکمرانوں کا یہ اقدام تاریخ نے سیاہ باب کے طور پر رقم کیا۔ تو حکومت سوچے کہ کیا اس نے پاکستانی سیاست میں ایک اور سیاہ ترین باب رقم کردیا ہے

1999 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔

اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔

شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں