The news is by your side.

کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی بیرونی سازش کے تحت لائی گئی “امپورٹڈ حکومت نامنظور” کے بیانیے کے ساتھ ملک بھر میں جلسے کرنا شروع کر دیے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہنے کے بعد 20 مئی کو ملتان میں ہونے والے جلسے میں جاکر تھما جہاں اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے تاریخ کا اعلان ہونا تھا۔ انہوں نے اس مارچ کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ موجودہ حکومت ختم کر کے فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ تاہم بعض یقین دہانیوں اور پس پردہ کوششوں کے وعدوں کے باعث 20 مئی کو اعلان تو نہ ہوسکا لیکن 22 مئی کو پشاور میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حقیقی آزادی مارچ کے لیے 25 مئی کی حتمی تاریخ دے دی گئی۔

پی ٹی آئی کے ‘حقیقی آزادی لانگ مارچ’ کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی حکومت بھی حرکت میں آگئی اور اپنے اتحادیوں سے بھرپور مشاورت کے بعد اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا لیکن ان سے وہ عوام جن کا نہ پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت سے کتنے متاثر ہوں گے؟ اس کی حکومت نے پروا نہیں کی اور مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کی جو کوششیں اور جس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں اس سے تصادم کا خدشہ ہے۔

ہم اس بلاگ میں پہلے حکومت کے کچھ اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلام آباد میں رینجرز کی تعیناتی سمیت ملک بھر سے پولیس کی بھاری نفری، خواتین اہلکار، قیدیوں کی وینز اور ہزاروں کی تعداد میں آنسو گیس شیلز بھی منگوا لیے گئے جب کہ اطلاعات کے مطابق ایف سی کو مظاہرین کیخلاف آنسو گیس کے استعمال کی اجازت بھی دے دی گئی اور کئی جگہ ان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور سندھ میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے، پنجاب بھر کے اسلام آباد جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیے جانے سے لاہور سمیت کئی بڑے شہروں کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے طبی عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کی جاچکی ہیں، میٹرک کا منگل کے روز ہونے والا پرچہ منسوخ کردیا گیا تھا، منگل کو پنجاب بھر کے اسکولوں میں چھٹی بھی رہی اور معلوم نہیں کہ اس صورتحال میں کب تک اسکول بند رہیں۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، مارچ کے آغاز سے قبل ہی ملک بھر بالخصوص پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں جو صورتحال ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مارچ نہیں بلکہ دشمن کی فوج آرہی ہے جس سے نمٹنے کیلیے حکومت سخت ترین اقدامات کررہی ہے۔ اس کا ایک اندازہ دو روز سے پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس چھاپوں اور سیکڑوں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری سے لگایا جاسکتا ہے، حد تو یہ ہے کہ حکومت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خون کو بھی نہیں بخشا اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصر جاوید اور پوتے ولید اقبال کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے، اسی افراتفری میں لاہور میں گھر میں داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں پر مبینہ طور پر اہلخانہ کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل کمال شہید ہوگیا، یہ بلاگ لکھے جانے تک پولیس پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی حراست میں لے چکی ہے جن میں خاتون رہنما یاسمین راشد، عندلیب عباس بھی شامل ہیں۔

حکومت نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے اگر دو منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے تین منصوبے تیار کر رکھے ہیں جو پی ٹی آئی رہنما اسد عمر بتا چکے ہیں لیکن یہ منصوبے کیا ہیں اس کی میڈیا تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی ہے۔

اب آتے ہیں حکومتی اقدامات سے عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں سے دور رہنے والے عوام کی تکالیف کی طرف تو ایک جانب جب پورا پنجاب بند کر دیا گیا ہے اور مال بردار کنٹینرز اور ٹریلر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے تو ایک جانب ان کنٹینرز اور دیگر گاڑیوں میں لدا سامان خراب ہونے اور عوام کے کروڑوں روپے کے نقصان کا امکان غالب ہے تو دوسری جانب ترسیل نہ ہونے سے ملک میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہوسکتی ہے، راستوں کی بندش کے باعث ٹینکرز ایسویسی ایشن نے پنجاب بھر کو پٹرول کی سپلائی بند رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ راستوں اور مسافر گاڑیوں کی بندش سے لوگوں کے اپنے عزیز واقارب سے رابطے منقطع ہوچکے، اس دوران کئی خوشی اور غمی کے لمحات میں لوگ اپنے پیاروں سے نہیں مل سکیں گے۔ ایمرجنسی میں اسپتال نہیں پہنچ سکیں گے جس کے باعث زندگیوں کو خطرات لاحق ہونگے۔ لوگ اپنے کاموں پر نہیں جاسکیں گے تو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی پسے عوام کس طرح اپنے گھروں کا چولہا جلا پائیں گے۔

ایک جانب عمران خان کا کہنا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی جہاد سمجھ کر نکل رہا ہوں جب کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی کو خطرہ اور خودکش حملے کا خدشہ ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کرچکے ہیں۔

پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے اپنا سفر شروع کیا اور صوابی انٹرچینج پر ایک بار پھر عوام سے تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں گے، دوسری جانب حکومت ہر حال میں اس مارچ اور مظاہرین کو کچلنے کیلیے طاقت کا ہر حربہ آزمانے پر بضد ہے اور اس حکومت کے اصل کرتا دھرتا نواز شریف پہلے ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے “بھرپور” تیاریاں کرنے کی ہدایت کرچکے تھے جس کے بعد پنجاب سمیت کراچی اور اندرون سندھ بھی پولیس نے مجموعی طور پر سیکڑوں گرفتاریاں کی ہیں اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم جیسی صورتحال بھی سامنے آئی ہے جہاں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس بھی فائر کیے ہیں جب کہ حکومتی وزرا بالخصوص وزیر داخلہ کے سخت بیانات نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو کسی ممکنہ تصادم سے بچانے کیلیے پی ٹی آئی کے گرفتار افراد کو رہا کرنے جب کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کو احتجاج کیلیے اسلام آباد میں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ملک میں بحران سے نمٹنے کی سب سے بڑی ذمے داری تو حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے اور ایسی حکومت جس کے دامن پر 2014 میں ماڈل ٹاؤن واقعے کے 14 مقتولوں کے خون کے دھبے بھی ہیں اس کو تو ویسے ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے کہ زرا سی غفلت چنگاری کو شعلہ بناسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس تمام صورتحال میں جب کہ ملک سیاسی بحران کے باعث پہلے ہی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور معیشت کو چلانے کیلیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ گدائی پھیلایا جارہا ہے، ایسے سخت آزمائشی دور میں اگر کسی کی بھی معمولی سی غلطی سے اگر ملک کسی تصادم سے دوچار ہوتا ہے تو کیا پاکستان اور غربت میں پسے اس کے مظلوم عوام ایسے کسی بھی تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

یقیناً مقتدر اور سنجیدہ حلقے اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے، باکسنگ کے رِنگ کا بھی اصول ہے کہ جب تک معاملہ کھیل تک رہے اور کوئی سنگین خطرہ نہ ہو تو ریفری رِنگ سے باہر ہی رہتا ہے لیکن جیسے ہی معاملہ بگڑنے لگتا ہے کہ ریفری مجبوراً رنگ کے اندر آتا ہے اور ایک دوسرے سے نبرد آزما کھلاڑیوں کو چھڑا کر الگ کرتا ہے کہ کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ ہوجائے۔ یہاں مسئلہ نہ باکسنگ کے رنگ کا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا، بلکہ یہاں معاملہ ہے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھری مملکت خداد پاکستان اور اس کے 22 کروڑ عوام کا۔ تو یہ وقت ہے کہ فیصلہ ساز انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں پاکستان کو تصادم کا شکار ہونے سے بچائیں۔ کیونکہ ملک ہے تو سب کی سیاست ہے، ملک ہے تو اقتدار بھی ہے اور سب کی طاقت اور فیصلہ سازی کی قوت بھی ہے۔ اس لیے ملک سب سے مقدم ہے اور کسی بھی فیصلے میں اس کو ہی مقدم رکھنا چاہیے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں