The news is by your side.

وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

احتجاجی سیاست کو نیا ڈھب دینے والے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سڑکوں پر ہیں اور پچھلے چند ہفتوں سے لانگ مارچ کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تیار کرتے رہے کہ یہ حقیقی آزادی کی جدوجہد ہے اور وہ لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پہنچیں‌ گے اور وہاں دھرنا دیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

عمران خان ہر رکاوٹ عبور کرکے اسلام آباد تو پہنچ گئے لیکن وہاں دھرنا نہیں دیا بلکہ جلسہ کرکے لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 6 روز کے اندر نئے الیکشن کروائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ایک بار پھر 20 لاکھ افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ اگلے روز انہوں نے اس کی مزید وضاحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر اس شام میں اسلام آباد رک جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں اسلام آباد سے واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دوسری جانب لانگ مارچ شروع ہونے کے اگلے روز قومی اسمبلی اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ دینے کا حق واپس لینے اور نیب قوانین میں ترامیم کے بلوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اپنی تقریر میں حسب روایت گرجے برسے اور کہا کہ وہ عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور الیکشن کا فیصلہ یہ ایوان ہی کرے گا لیکن ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہک موجودہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکاری پی ٹی آئی کی جانب سے بھی فوری طور پر کہا گیا کہ وزیراعظم مذاکراتی کمیٹی بنائیں، بات چیت کیلیے تیار ہیں۔

پی ٹی آئی کا موقف کہ خون خرابے سے بچنے اور ملک و قوم کے مفاد میں اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ واپس لیا اور حکومت کا موقف کہ پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامی کو وہ خون خرابے اور ملک کے وسیع مفاد کے بیانیے میں چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ساتھ ہی دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مذاکرات کے ڈول ڈالنا یہ وہ عوامل ہیں جس کے بعد ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہوگیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب بڑھتے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے قدموں کی گونج نے ایوانوں میں لرزہ طاری کیا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ لانگ مارچ ناکام ہوگیا اور پی ٹی آئی نے پسپا ہونے کے بعد حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھری، لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور اس کے بعد حکومتی اقدامات پر عدالتوں کا فوری حرکت میں آنا اور ایسے فیصلے دینا جس سے پی ٹی آئی کو ریلیف ملا ہے، اس نے حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ جس کا واضح ثبوت سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے ملکی صورت حال سے متعلق فیصلوں کے بعد ن لیگ کے بعض سیاسی رہنماؤں کے بدلتے لب ولہجے ہیں، بالخصوص ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز جن کا ماضی اداروں کو تنقید کے حوالے سے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انہوں نے اپنے ٹوئٹر بیانات میں عدالتوں کو نرم لہجے میں مشورہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔

ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف جو لندن میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود لیگی قیادت اور حکومت ان کے اشارے کی منتظر رہتی ہے اور کوئی فیصلہ ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرتی، نے گزشتہ دنوں حکومت چھوڑنے کا گرین سگنل دیتے ہوئے واضح کہہ دیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے اچھا پیکیج نہیں ملتا تو حکومت جلد از جلد قومی اسمبلی سے نیب قوانین میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات منظور کرائے اور اس کے فوری بعد حکومت سے باہر آجائے اور اب جب کہ نواز شریف کی یہ دونوں خواہشات جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوری ہو گئیں تو پھر کچھ بھی ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

حکومت نے گوکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے دباؤ میں گزشتہ شب اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا اور آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ن لیگ میں اکثریت کی رائے یہی ہے کہ قیمتیں بڑھانے کی بجائے فوری الیکشن کرائے جانے چاہییں کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پارٹی کی عوام میں مقبولیت کو بری طرح نقصان پہنچے گا، ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کی اکثریت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا پارٹی کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

ان حالات میں ملک بالخصوص سوشل میڈیا پر تو افواہوں کا بازار گرم ہوچکا ہے اور مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران کو یقین دہانیوں کی بات کی جارہی ہے جن میں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں کہ ‘عمران خان نے دھرنے کا فیصلہ ایسے ہی واپس نہیں لیا بلکہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر وزیراعظم شہباز شریف کے دستخط کرکے لفافہ صدر کے پاس رکھ دیا ہے جس کا اعلان 2 جون کو ہوگا، تب تک کیئر ٹیکر حکومت کا فیصلہ کیا جائے گا، قوم الیکشن کی تیاری کرے۔’

اسی طرح یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ مذاکرات میں فیصلہ 25 مئی کو دن 12 بجے ہی ہوگیا تھا لیکن عمران خان نے کہا کہ درمیان میں آنے والوں سے کہا کہ مجھے کسی کے زبانی کہنے پر یقین نہیں ہے، سمری لکھ کر صدر کے پاس رکھ دو، پھر جب قافلے ہر طرف سے اسلام اباد داخل ہوئے اور آئی ایم ایف سے حکومت کے مذاکرات بھی ناکام ہو گٸے تو صبح 4 بجے حکومت کی جانب سے سمری صدر کو بھیج دی گئی جس پر صدر علوی نے عمران خان کو آگاہ کیا اور تب عمران خان 6 دن کا وقت دے کر اسلام آباد سے واپس ہوئے۔’

یہ افواہیں یا قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہی ہیں اور لوگ اس کو پھیلا رہے ہیں۔ تاہم ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خاموشی ہے۔ ادھر عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی ڈیل نہ ہونے کی واضح بات اور حکومت کی جانب سے اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے بیانات کے بعد یوں بھی اس قسم کی باتوں اور قیاس آرائیوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی لیکن یہ سارا تماشا اب بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ ساتھ ہی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتی کھیلوں میں اس سے قبل بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ زبان پر کچھ ہوتا ہے، پس پردہ کچھ اور نتیجہ کچھ سامنے آتا ہے۔

اب چاہے نواز شریف کا مشرف سے معاہدہ ہو، بینظیر اور مشرف کے درمیان معاہدہ ہو یا معاہدے کے تحت ہی مشرف کا صدر کا عہدہ چھوڑنا، جب یہ باتیں باہر نکلیں تو پہلے متعلقین اس کی بھرپور تردید کرتے رہے لیکن جب سب کچھ ویسے ہی سامنے آیا تو انہیں ماننا ہی پڑا۔

ہوسکتا ہے کہ آج بھی تمام تر تردید اور مسلسل بیانات کے باوجود ان افواہوں سے ہی کوئی حقیقت جنم لے لے، کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ “دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے۔” آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، یہ جلد واضح ہو جائیگا لیکن سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی بقا اور استحکام ان کی انا اور ضد سے بڑھ کر ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں