The news is by your side.

شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

مثل مشہور ہے کہ “اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔” شاید اندھوں کی بستی میں یہی بہتر آپشن ہوتا ہو۔ ہم اپنے وطنِ عزیز کی بات کریں تو پاکستان کے عوام کو تو اکثر بے حس راجا (حکمراں) ہی ملے ہیں جنہیں عوام سے زیادہ اپنا خیال رہا ہے، اس مثل کو دیکھتے ہوئے کہیں تو یہ سوچ ابھرتی ہوگی کہ پاکستان میں بستے عوام کو بھی کوئی کانا راجا مل جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔

مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی کی چیخ پکار کرنے والے جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو ” امید پر دنیا قائم ہے” کے مصداق غربت کی ماری عوام نے بھی ایک امید باندھی کہ زیادہ کچھ نہیں بس اتنا ہو کہ وہ سکون سے اپنے اہلخانہ کی کفالت کرسکیں۔ دو ماہ کی حکومت نے ایک ماہ کی ادھر ادھر تاکا جھانکی کے بعد جس طرح اپنی کارکردگی کی رونمائی کرائی اس نے تو غریب عوام کے چودہ طبق ہی روشن کردیے۔

عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کی کارکردگی کی داستانیں تو لوگ روز ہی ٹی وی چینلز پر دیکھ اور اخبارات میں پڑھ رہے ہوں گے اس لیے اس پر کیا بات کریں کہ بات پھر وہی ہوگی کہ قارئین پڑھ کر کہیں گے کہ ‘دل جلانے کی بات کرتے ہو’ تو ہم تو اپنے ایک بزرگ سیاسی رہنما کے اس قول ‘ مٹی پاؤ اور روٹی شوٹی کھاؤ’ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر اس بات سے صرف نظر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس سے دل جلے لیکن کیا کریں کہ اب تو حالات صرف ‘مٹی پاؤ’ میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور روٹی شوٹی کھانے کا معاملہ تو لگتا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو غریب کے لیے روٹی شوٹی کھانے کی عیاشی بھی عید کے چاند کی طرح ہو جائے گی، کیونکہ جب بجلی، گیس، پٹرول سمیت سب کے دام اقبال کے شاہیں (جسے شہباز بھی کہا جاتا ہے) کے پر لگا کر ان کے شعر کے اس مصرع ” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر” پر عمل کرتے ہوئے پہاڑ کیا آسمان دنیا عبور کرکے پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچے ہیں اور سنا ہے ان کی قوت پرواز ابھی باقی ہے تو پھر ہمیں واقعی “شہباز اسپیڈ” یعنی شاہین کی قوت پرواز کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

بلاگ لکھنا تو کسی اور موضوع پر تھا لیکن قلم بہک کر دوسری سمت چلا گیا چلیں اس کو رام کرکے ہم راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمرانوں کی نظر میں تو ملک کے عوام کو روٹی چٹنی کھانے کی عیاشی کا بھی حق نہیں لیکن وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

بدترین معاشی بحران کا شکار پاکستان جس کا رونا ہمارے موجودہ حکمران روتے رہتے ہیں، لیکن اس ملک کے حالات بدلنے کیلیے کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ گزشتہ ایک ماہ میں میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے کپڑے بیچ کر ملک کو سستا آٹا فراہم کرنے والے وزیراعظم اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا تو نہ دے سکے لیکن اسی عوام کے پیسوں میں سے کروڑوں روپے سے وزیراعظم ہاؤس میں پہلے سے موجود سوئمنگ پول کی مرمت کرائی گئی ہے جب کہ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس مزید سجاوٹ بھی ہونی ہے اس کے لیے عوام کے خون پسینے کی کتنی کمائی استعمال ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔

دوسری جانب دو ہفتوں میں تین بار دکھی دل کے ساتھ عوام پر پٹرول بم گرانے والے ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی عوامی خزانے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہوگئے ہیں، خبر کے مطابق مفتاح اسماعیل نے اپنے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔

ایک جانب عوام کے سب سے بڑے ہمدرد ہمارے حکمرانوں کے یہ شاہانہ انداز ہیں تو دوسری جانب ہمارے یہی وزیراعظم اور ان کے درباری وزرا عوام کو سادگی سے زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں اور جس طرح امریکا اور آئی ایم ایف ہماری حکومت سے ڈومور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں نے بھی اسی طریقے کو اپناتے ہوئے عوام سے ڈومور ڈومور کی رٹ لگا دی ہے۔

اِدھر ہمارے وزیراعظم غریب کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے مل بانٹنے کا نایاب فارمولا بتا رہے ہیں تو اُدھر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو چائے کے دو کپ کم کرنے کا انمول مشورہ دے رہے ہیں، اسی دوران دربار شاہی کے دربانوں کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ ڈومور کا مطالبات پر مبنی بیانات آتے ہی رہتے ہیں۔ چلیں حکمرانوں کے ان نادر ونایاب مشوروں سے یہ تو ہوا ہے کہ کم از کم عوام کے دکھ بھرے چہروں پر ہلکی سی صحیح مسکراہٹ تو بکھری ہے کہ اس دور میں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بہت نیکی کا کام ہے اور ہمارے نیک حکمرانوں نے یہ نیک کام بخیر وخوبی اور ہنستے کھیلتے انجام دیا ہے۔ ویسے بھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے پیاروں کو یہ میٹھا پھل کھلانا چاہتا ہے تو حکمرانوں کیلیے عوام سے پیارا تو کوئی نہیں ہے نا اسی لیے تو انہوں نے عوام کو صبر کرکے اس کا میٹھا پھل کھانے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ اصلی پھل تو اب بے چارے عوام کی دسترس میں رہے ہی نہیں ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اس لطیفہ نما مشوروں پر عوام کے چہروں پر آنے والی ہنسی کے پیچھے چھپی بے بسی کی ایک الگ کہانی ہے جس سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔

اب اگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرکے مل بانٹ کر کھانے کا درس دیا یا صبر کرکے چائے کی پیالی کم کرنے کا مشورہ دیا تو اس پر عوام کا غم وغصہ اور سوشل میڈیا پر شور بپا ہوگیا اور ہمارے ایک محترم وزیر کو ارسطو کا خطاب مل گیا (ویسے ہمارے حکمرانوں میں تو سارے ہی ارسطو ہیں) تو اس پر حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب انہوں نے اپنی پیاری عوام کو اتنے پیارے مشورے دے ہی ڈالے تو پھر ” کیا ہے جو پیار تو پڑے کا نبھانا” کے حسب حال طنز تو برداشت کرنا پڑے گا کہ ان حالات میں عوام کی عیاشی کے صرف دو ذرائع تو رہ گئے ہیں کہ ایک روٹی اور دوسری چائے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کا گھر بھی چل رہا ہے، اگر اس پر بھی قدغن لگ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

ویسے ارسطو وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی کفایت شعاری کی یہ منصوبہ بندی پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں بھی لاگو کی جائے گی کہ پاکستان بھر میں مہنگائی کی مناسبت سے چائے کا کپ 40 سے 50 روپے میں دستیاب ہے لیکن پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں یہی مزیدار چائے سے بھرا کپ بازار سے کئی گنا کم قیمت میں ہمارے غریب اور مسکین اراکین پارلیمنٹ کو فراہم کیا جاتا ہے اور بات آئے روٹی کی تو غریب پارلیمنٹرین کی کینٹین میں اتنی سستی روٹی ہے کہ اگر حقیقی غریب عوام تک اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو شاید وہ بددعائیں دینے کے بجائے حکمرانوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دینے لگیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021ء کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اسی پاکستان کے 9 کروڑ لوگ جو کہ مجموعی آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس سروے رپورٹ کی عملی شکل ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسری جانب غربت کا نظارہ کرنا ہے تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ موجودہ حکومت کے دو ماہ کے اندر متعدد افراد نے غربت کے باعث اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا ہے اور جو یہ نہ کرسکے تو اپنے بچوں کی کفالت نہ کرنے کا بوجھ دل پر لے کر تھانے گرفتاری دینے یا اسمبلیوں میں دہائی دینے خاندان سمیت پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں کہیں ایسا در نہیں مل رہا جہاں ان کی شنوائی ہوسکے۔

مسلمانوں کے دوسرے خیلفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا۔

ہمارے لیے رول ماڈل خلیفہ دوم کا یہ قول صرف کسی مخصوص زمانے کیلیے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کیلیے ایک واضح تنبیہ ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں