The news is by your side.

سڑکوں پر موت بانٹتا ہیوی ٹریفک اور چارہ گر

“نائٹ ڈیوٹی کرکے آنے کے بعد گھر میں سو رہا تھا کہ اچانک کانوں میں ایمبولینس کے سائرن کی تیز آواز سنائی دی۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اللہ خیر کرے کہتا ہوا گھر سے باہر نکلا تو وہاں محلے والوں کا ہجوم لگا ہوا تھا اور ایمبولینس سے میتیں نکالی جارہی تھیں، آہ و فغاں جاری تھا معلوم ہوا کہ پڑوس کے عنایت صاحب جو بیٹے کو چھوڑنے اسکول گئے تھے کہ سڑک پر دندناتے ڈمپر نے روند ڈالا اور آن کی آن میں باپ اور بیٹا دنیا چھوڑ گئے۔ متوفی گھر کے واحد کفیل اور بیٹا بھی اکلوتا تھا وہ اپنے پیچھے دو کمسن بیٹیاں اور بیوہ کو بے سہارا چھوڑ گئے۔”

یہ کہانی تو فرضی ہے لیکن زمینی حقائق کے منافی نہیں، آئے دن ایسے حادثات رونما ہونا معمول بن چکے ہیں، ان حادثات میں زیادہ تر حادثات کی وجہ ہیں سڑکوں پر دندناتے ٹریلر، ڈمپر اور کنٹینر کے ساتھ سڑکوں پر ریس لگاتی بسیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ چار روز کے دوران ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ڈمپر اور ٹرالروں نے کم از کم 5 گھروں کے چراغ بجھا دیے ہیں، چار روز قبل نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگ کے قریب ڈمپر نے دو موٹر سائیکل سواروں کو کچل ڈالا، ڈرائیور فرار ہوگیا، اہل علاقہ نے مشتعل ہوکر ڈمپر جلا ڈالا، اگلے روز ایسا ہی ایک حادثہ پرانی سبزی منڈی کے علاقے میں پیش آیا جب کہ گزشتہ روز عائشہ منزل کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے دو موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے گئے۔ اس کے علاوہ ریسکیو ادارے کی دو ماہ کی رپورٹ اٹھا کر دیکھیں تو رواں سال کے ابتدائی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری میں ہی 151 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ 784 افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس حادثات کے نقصانات کے اعداد وشمار میں اگر لگ بھگ رواں سال کو پورا نصف شامل کریں تو یہ گراف کہیں اوپر پہنچ جائے گا۔ اب ان میں سے کوئی اکلوتا بیٹا تو کوئی گھر کا واحد کفیل اور کوئی جوان بہنوں کا واحد سہارا، کسی کی حال ہی شادی ہوئی ہوگی تو کسی کی ماں اپنے بیٹے پر سہرے سجانے کے خواب دیکھتی ہوگی لیکن جب گھر سے خون پھولوں کی چادر میں یہ میتیں اٹھتی ہوں گی تو اس کا حقیقی درد تو وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس کرب سے گزر رہا ہے یا گزر چکا ہے۔ ان ٹریفک حادثات شکار وہ بھی بنے ہوں گے جن کی نظریں مستقبل کے آفاق پر ہوں گی، لیکن ان کے خواب بھی ان کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگئے ہوں گے۔ لوگ بھی آئے دن ٹی وی چینلز، اخبارات اور اب تو سوشل میڈیا پر خبر پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ آج فلاں علاقے میں ٹینکر نے تین افراد کو کچل دیا، آج ڈمپر نے موٹر سائیکل سواروں کو روند ڈالا، بے قابو ٹرک گھر یا فیکٹری میں گھس گیا اور کئی قیمتی جانیں نگل گیا۔

حادثے کا شکار کبھی ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہوتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے دوست، لیکن حکومت سمیت متعلقہ اداروں کی کمال بے حسی کہ ان حادثات پر اب تو رسمی بیانات اور اقدامات کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ہم کراچی شہر میں رہتے ہیں جو کہنے کو بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والا شہر ہے لیکن یہاں کراچی کے شہریوں کو دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیں تو اس ’’بین الاقوامی‘‘ شہر کے باسیوں کی حالت زار پر صرف ’’بین‘‘ کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کہلانے والا شہر کراچی جس کی آبادی متنازع مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ کے لگ بھگ جب کہ عمومی رائے کے مطابق ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میٹروپولیٹن قرار دیے جانیوالے اس شہر کے باسیوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کی جاتیں جو کہ حقیقتاْ اس شہر کے باسیوں کا حق ہیں لیکن ہوا اس کے برعکس بجائے اس کے کہ عنان اقتدار پر جمے جدی پشتی حکمران کراچی کے عوام کو دستیاب سہولتوں میں اضافہ کرتے اس کے برخلاف شہریوں کو جو سہولتیں دستیاب تھیں وہ بھی ان سے آہستہ آہستہ چھین لی گئیں۔

منی پاکستان کہلائے جانے والے کراچی کا حال تو یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مشکل ترین امر ہوگیا ہے۔ لیکن ہم یہاں صرف شہر کی خستہ حال سڑکوں پر بلاخوف وخطر دندناتے اور شہریوں میں موت بانٹتے ہیوی ٹریفک کا ذکر ہی کریں گے کیونکہ کراچی کے شہریوں کو درپیش تمام مسائل اتنے زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ ان کا احاطہ تو ایک بلاگ میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کیلیے ضخیم مضمون بھی شاید ناکافی ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ ہیوی ٹریفک چلانے والے ڈرائیورز کا ٹریفک قوانین سے نابلد ہونا، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا، کم عمر ڈرائیور اور سڑکوں پر ریس لگانا سرفہرست ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فیصد حادثات تیز رفتاری اور 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیونگ کے باعث ہوتی ہیں لیکن کمال حیرت کی بات ہے کہ حادثات کے وقت کئی مقامات پر پولیس موجود ہوتی ہے لیکن حادثے کا موجب ڈرائیور اور اس کے ساتھی وہاں سے باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہی لگاتا ہے؟ ڈمپر، ٹریلر اور ٹینکر حادثات میں اضافے کے بعد حسب روایت پولیس افسران کی جانب سے صبح 7 سے 9 تک اور شام 5 سے رات 9 تک شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور ان میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں، کنسٹریکشن مکسچر کی گاڑی، ڈمپر، واٹر ٹینکر اور ایسی دیگر گاڑیاں شامل ہیں اور ساتھ ہی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں اور تیز رفتاری اور غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اس پابندی کو عائد ہوئے تین ماہ گزر جانے کے باوجود اس پر کہیں عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ آج بھی دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک شہر قائد کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ اعلانات، پابندیاں نئی بات یا پہلی بار نہیں بلکہ ریکارڈ اٹھاکر دیکھا جائے تو شہر میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں دن کے اوقات میں داخلے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے لیکن اس پر کبھی عملدرآمد ہوا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس پر کبھی موثر طریقے سے عملدرآمد کرایا ہی نہیں گیا ہے۔ عملدرآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانین پر عملد رآمد کیلیے متعین عملے کی مبینہ غفلت اور کرپشن ہے دیکھا گیا ہے اور اکثر سوشل میڈیا پر بھی ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ ٹریفک اہلکار غریب موٹر سائیکل سواروں کو تو روک لیتے ہیں لیکن پابندی کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں داخلے پر مبینہ غفلت یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور اگر کبھی کہیں پکڑ بھی لیا جائے تو مبینہ مُک مُکا کرکے انہیں کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔

ملک میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے ہی عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر عمر بھر کی معذوری کا عذاب سہتے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوتا ہے۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق مستقبل میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں 2030 میں حادثات میں 200 فیصد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ روڈ سیفٹی پروجیکٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت پر خرچ ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلیے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے اور حادثات کے مرتکب ڈرائیورز کو قانون کی مضبوط گرفت میں نہ لانے کے باعث حادثات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ حکام نے توجہ نہ دی تو سڑکوں پر بے فکری سے دندناتے اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلاتے یہ ٹریلر، ڈمپر، کنٹینرز اور بس ڈرائیورز یونہی گھروں کے چراغ بجھاتے رہیں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کراتے ہوئے ہیوی ٹریفک کو پابندی کے اوقات میں شہر میں ہرگز ہرگز داخل نہ ہونے دیا جائے اور حادثات کے مرتکب غافل ڈرائیورز کو قانون کے کٹہرے میں لا کر ایسی سزائیں دی جائیں جو دیگر کیلیے نمونہ عبرت بن جائیں۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں