The news is by your side.

کیاموجودہ حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی ہے ؟

ڈھائی ماہ قبل اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بڑے کروفر کے ساتھ 11 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں آیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا یوں معاشی اور سیاسی طور پر ہچکولے کھاتے پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ مسلم لیگ ن کو دے دی گئی اور پھر حصہ بقدر جثہ کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہوگئی۔ لیکن ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے خاص طور پر سیاسی اور اقتدار کی سانجھے کی ہانڈی پھوٹنے کا دھماکا تو زیادہ تیز اور اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ سیاسی ساجھے داری میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط بلکہ صرف مفادات کو دیکھا جاتا اور اقتدار کے حصول کو ہی فوقیت دی جاتی ہے کہ یہی ہماری سیاسی تاریخ رہی ہے۔

لگ بھگ کرکٹ ٹیم کے اراکین کے مساوی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بنائی گئی حکومت کی کھچڑی جب بنی تھی تو وزیراعظم شہباز شریف کے سابقہ انتظامی تجربے کو دیکھتے ہوئے قوم کو امید تھی کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لاکر پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت شہباز شریف نے اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں بھی دکھائیں اور اتنی دکھائیں کہ ان کے اپنے ہی لوگوں نے اسے شہباز اسپیڈ کا نام بھی دیا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایک ماہ کے اقتدار میں نصف درجن غیر ملکی دورے بھی کرلیے تھے جو بعد ازاں غالباً عوامی سطح پر تنقید کے باعث روک دیے گئے۔ اسی دوران انہوں نے کئی خوش کن اور دلربا قسم کے اعلانات بھی کیے لیکن جلد ہی ان سے اس طرح یوٹرن لیا کہ پوری قوم ان کی جانب سے خطاب دیے جانے والے “یوٹرن خان” کو بھولنے لگی، ویسے عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا۔

موجودہ حکومت کی مشکلات تو شہباز شریف کے وزرات عظمیٰ کی مسند پر بیٹھتے ہی شروع ہوگئی تھیں کہ ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلیے جو فیصلے کیے گئے اس سے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی تو چیخیں ہی بلند ہوگئیں، دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں لگ بھگ دُگنا کے قریب اضافہ، بجلی، گیس، سی این جی کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی بے پناہ لوڈشیڈنگ، آئی ایم ایف کی ایما پر تیار کیا گیا ظالمانہ بجٹ اور پھر منی بجٹ اور اس کے نتیجے میں شہباز کی اسپیڈ کی زیادہ تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کو تو بے حال کیا لیکن حکومتی کیمپ میں بھی بے چینی بڑھی کیونکہ ملک میں متحرک اپوزیشن پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ عوام کے الزامات اور غصے کا تمام تر رخ حکومت کی جانب ہوگیا لیکن اس صورتحال میں جب کہ یہ گیارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے سارا عوامی ردعمل ن لیگ کے حصے میں آیا جب کہ دیگر جماعتیں جن میں بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی (ف) شامل ہیں تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ ان مشکل معاشی فیصلوں پر شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں سوائے ایک آدھ بیان دینے کے کچھ نہیں کیا بلکہ ہنوز ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہوئے ن لیگ کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔

بات صرف عوامی ردعمل اور اپوزیشن کے احتجاج تک ہوتی تو شاید شہباز حکومت کیلیے اتنی فکر کی بات نہ ہوتی لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بظاہر حکومت مخالف عدالتی فیصلوں کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے جس طرح سے شہباز حکومت کو آنکھیں دکھانی شروع کی ہیں اور کھلم کھلا اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیاں بھی دے ڈالی ہیں اس سے حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان سا لگتا محسوس ہوتا ہے۔

یہ تو سب کو پتہ ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم، بی اے پی اور آزاد اراکین کو اپنا ہمنوا کرکے بنائی گئی تھی اور اس کے لیے انہیں سبز باغ بھی دکھائے گئے تھے لیکن ان سبز باغوں کا اب تک وہی ہوا ہے جو اس سے قبل دکھائے گئے سبز باغوں کا ہوتا رہا ہے اور وہ جنہوں نے بڑی خوشی اور دعوؤں کے ساتھ اپنی سابقہ حلیف جماعت پی ٹی آئی پر وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے سابقہ حکومت سے علیحدگی نئی حکومت سے وعدوں کے بندھن میں بندھ کر اپنا ایک اور نیا سیاسی سفر شروع کیا تھا اب وہی موجودہ حکومت کی وعدہ خلافیوں سے نالاں ہوکر اپنے پرانے آشناؤں کے دور کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے بہتر تو عمران خان کی حکومت تھی اس میں انہیں فنڈز بھی ملتے تھے اور ان کی بات بھی سنی جاتی تھی۔

اس سارے تماشے میں بات کریں ایم کیو ایم کی تو وہ اپنے بند دفاتر کی حوالگی اور دوبارہ کھولنے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مکمل بااختیار بلدیاتی نظام کے مطالبے پر موجودہ حکومت کا حصہ بنی تھی، ابتدائی دو مطالبات شاید کسی سیاسی حکومت کے لیے پورا کرنا ممکن نہ ہوں لیکن تیسرا اور اہم ترین مطالبہ بااختیار بلدیاتی نظام پر پی پی پی نے اب تک ایم کیو ایم کو لالی پاپ ہی دیا ہے اور ایم کیو ایم یہ لالی پاپ کھا کھا کر اتنا تنگ آچکی ہے کہ اس نے مزید یہ لالی پاپ کھانے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایم کیو ایم کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور رواں ماہ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر پی پی کی یہی روش رہی تو ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ دونوں بڑے شہروں کی میئر شپ سے اسے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے جس کا اظہار پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی یہ دعویٰ کرکے کرچکے ہیں کہ اگلا میئر کراچی پی پی پی کا ہوگا۔

ایم کیو ایم اور پی پی کے معاہدے میں ضمانتی شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن تھے لیکن وہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی زبان بھی تلخ ہوتی جارہی ہے۔ عوامی سطح کے بعد اب ایم کیو ایم کی حکومت کے خلاف آواز ایوان میں بھی بلند ہونے لگی ہے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت سے علیحدگی کی کھلے لفظوں میں دھمکی دے چکی ہے حکومت سے صرف ایم کیو ایم ہی ناراض نہیں بلکہ ن لیگ کی ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنی جے یو آئی (ف) بھی پریشان ہے، بالخصوص سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے یکطرفہ نتائج اور کھلے عام دھاندلیوں کی بازگشت پر وفاقی حکومت کی پراسرار خاموشی نے اس کے اشتعال میں اضافہ کردیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) جو اطلاعات کے مطابق پہلے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو صدر بنانے کے وعدے سے مُکر جانے پر اتحاد کی بڑی جماعتوں سے نالاں تھی سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ان پر جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور اس نے دو ووٹوں کی بیساکھی پر کھڑی شہباز حکومت کو اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دیدی ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست تصور کیے جانے والے جے یو آئی کے رہنما مولانا راشد سومرو نے پی پی پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی کی من مانیوں، مبینہ دھاندلیوں اور اپنے اتحادیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیں اگر انہوں نے اس پر خاموشی اختیار رکھی تو وہ اتحاد کی بیساکھی واپس لینے پر مجبور ہوں گے، راشد سومرو نے صرف شہباز شریف کو ہی تنبیہہ نہیں کی ہے کہ بلکہ اپنے قائد فضل الرحمان سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کریں۔

شہباز حکومت کی ایک اور اتحادی بی اے پی اور آزاد رکن اسلم بھوتانی بھی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں ایک جانب انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خدشات اور حکومت کی بے وفائی کا کھل کر اظہار کیا تو دوسری جانب جب اس شور شرابے پر وزیراعظم نے انہیں ملاقات کیلیے بلایا تو وہاں بھی اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو کھری کھری سناتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان کا مزید حکومت کے ساتھ رہنا مشکل ہوگا۔

اے این پی اراکین کی اکثریت تو حکومت سے علیحدگی کی رائے رکھتی ہے اس حوالے سے حتمی فیصلے کیلیے ایمل ولی نے عید بعد پارٹی کا اہم اجلاس بلا لیا ہے۔

اس دوران حکومتی اتحادیوں کے اختلافات دور کرانے کیلیے آصف زرداری بھی میدان میں اترے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے تاہم ان ملاقاتوں کے بھی کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

ناقابل برداشت مہنگائی، اپنوں کی بیوفائی کے ساتھ ہی عدالتی فیصلوں نے بھی شہباز شریف اور حمزہ کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پہلے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی پی ٹی آئی کی 5 مخصوص نشستوں کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ووٹوں سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ منہا کرکے فوری طور پر اگلے روز دوبارہ گنتی کرانے کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن کے بعد 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ اںتخاب کرانے کا حکم دیدیا گیا ہے جس پر دونوں فریقوں یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ نے آمادگی ظاہر کی ہے۔

شہباز حکومت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے بعد اتحادیوں کا دباؤ برداشت کر رہی ہے ایسے میں عدالتی فیصلوں نے اس کی پریشانی بڑھا دی ہے، اگر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی واضح کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ شہباز کی ہار یقینی ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہوجائے گی اور حمزہ شہباز کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو یہ پنجاب کے بعد تخت اسلام آباد کیلیے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو بادشاہوں کو معلوم ہی ہے کہ اگر تخت اسلام آباد پر براجمان رہنا ہے تو پھر تخت لاہور کو قبضے میں رکھنا ہوگا۔

اس تمام صورتحال میں اگر کوئی خوش ہے تو وہ ہے پی ٹی آئی جو اقتدار سے جانے کے بعد سے سڑکوں پر ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اب تک عمران خان کی اپیل پر متعدد بار گھروں سے باہر آکر اور احتجاج کرکے ثابت بھی کردیا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ گوکہ 25 مئی کو اسلام آباد دھرنے کا منصوبہ نامکمل رہنے کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست میں کچھ ٹھہراؤ آیا تھا تاہم ایک ہفتے سے بدلتی صورتحال نے نئے مواقعوں کو جنم دیا ہے اور عمران خان نے ایک بار پھر سیاسی میدان گرم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ مہنگائی کے خلاف ہونے والے پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاج اور گزشتہ روز اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مہنگائی کیخلاف ہونے والے بھرپور احتجاج سے ہوگیا ہے اور ان دونوں ایونٹس میں پی ٹی آئی نے بھرپور عوامی شو سے ثابت کردیا ہے کہ فی الوقت وہ ملک کے سب سے بڑے مقبول لیڈر اور عوام میں ان کا بیانیہ سب سے زیادہ پر اثر ہے۔

تمام تر سیاسی صورتحال سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس وقت صرف عوام کی بے چینی میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ مقتدر حلقوں اور بند کمروں میں بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کا جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد ہونا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں