The news is by your side.

کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

اس بار مون سون کا آغاز ہی کراچی جیسے بڑے شہر میں‌ بڑی بربادی اور نقصانات کا سبب بن گیا ہے اور اب محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ سندھ کے مشرقی علاقے سے ایک اور سسٹم داخل ہوچکا ہے جو کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی اور جنوبی علاقوں میں تیز بارش کا سبب بن سکتا ہے۔

ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو ایک بار پھر کراچی پر رحمتِ خداوندی برس رہی ہو، جو متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ یعنی اب سب ہی برسات کے “مزے” اور آفٹر شاکس اور آفٹر شاکس کا مزا چکھنے والے ہیں آفٹر شاکس اس لیے کہا کہ ہمارے ہاں بارش جو تباہی لاتی ہے اس کے آفٹر شاکس کئی روز بعد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ویسے محکمہ موسمیات کی موسم کی پیشگوئی اور شیخ رشید کی سیاسی پیشگوئی کا ایک ہی حال ہے کہ پوری ہوگئی تو ہم نے کہا تھا نا، نہ ہوئی تو پھر ” جو اللہ کو منظور، میں کی کراں یا سانوں کی” کی صورتحال ہوتی ہے۔ بہرحال یہاں بات ہو رہی تھی بارش کے ایک اور طوفانی سسٹم کے کراچی میں آنے کی تو یہاں ایک ہی سسٹم نے پہلے ہی کراچی والوں کی سانسیں اوپر چڑھا دی ہیں بلکہ کئی علاقوں میں تو عوام کو چھتوں پر چڑھا دیا کہ نیچے تو ہر طرف پانی ہی پانی کا راج تھا بلکہ کئی علاقوں میں اب تک اس کا راج باقی ہے یہ الگ بات ہے کہ متعلقہ اداروں کی غفلت سے یہ رحمت کروڑوں شہریوں کے لیے زحمت بن گئی اور اب اس زحمت سے سخت تعفن بھی اٹھنے لگا ہے اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی کے باسیوں کی حالت اس وقت اس شعر میں ڈھلی نظر آرہی ہے۔

آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
میں نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے

اس بار کراچی میں عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آتے ہی برسات نے بھی ٹھانی کہ میں بھی عید کراچی میں ہی مناؤں گی نہ جانے اس کو کس نے کہہ دیا تھا کہ کراچی والے بڑے دریا دل ہیں اور عید کو بڑے اچھے انداز میں مناتے ہیں اس لیے شاید اس نے اس بار عید کو کراچی میں گزارنے کے ساتھ کراچی کو حقیقی معنوں میں دریا بنانے فیصلہ کیا اور اس حوالے سے اپنی دریا دلی دکھا ہی دی۔ ویسے کچھ سالوں سے عید کے موقع پر رم جھم ہوتی رہتی ہے لیکن اس بار برسات پوری تیاری سے عید منانے کراچی آئی اتنی تیاری کہ اس سے نمٹنے کیلیے حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں کی اعلان کردہ یا خود ساختہ تیاریاں کم پڑگئیں۔

شہر قائد کے گلی محلوں میں جیسے جیسے گائے اور بکروں کی تعداد بڑھتی گئی اسی رفتار سے بارش بھی بڑھتی چلی گئی، یوں تو محکمہ موسمیات نے یکم جولائی سے ہی شہر میں تیز بارشوں کی پیشگوئی کر رکھی تھی لیکن ابتدائی تین چار روز تک شہری بارشوں کا انتظار کرتے رہے۔ شاید بارش کی اس شہر میں عید منانے کیلیے آنے کے لیے تیاریوں میں کچھ کمی تھی اس وجہ سے چار دن کی تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے لوگ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کو “شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی سمجھنے لگے، تاہم پھر جب شیر آیا (معذرت کے ساتھ یہ سیاسی شیر نہیں) تو پھر اس کی دست بُرد سے شہر کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہا۔

شہر قائد کے پوش علاقے ڈیفنس، کلفٹن، ڈی ایچ اے ہوں یا متوسط علاقے صدر، نارتھ کراچی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، طارق روڈ، شاہراہ فیصل یا پھر غریب علاقے بارش نے حکمرانوں کی طرح نوازنے میں امیر اور غریب نہیں کیا اور بغیر کسی تفریق کے سب کو فیض یاب کیا اور ایسا فیض یاب کیا کہ سمندر کنارے آباد بستیوں کے مکینوں کو تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کہاں ساحل ختم ہورہا ہے اور کہاں سمندر شروع ہورہا ہے اور ہمیں علامہ اقبال یاد آگئے اپنے اس شعر کی صورت میں کہ

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

کیماڑی، سولجر بازار، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، سائٹ ایریا، انڈسٹریل ایریا، سعدی ٹاؤن سمیت شہر کی ہر سڑک دریا بن گئی جہاں کشتی کے بجائے لوگوں کی گاڑیاں تیرتی نظر آرہی تھیں۔ بارش خیر سے آگئی لیکن خیر سے گئی نہیں بلکہ تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں رقم کرگئی لیکن اس میں بارش کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اس کا کام تو برسنا ہے۔ قصور تو ان کا ہے جو ذمے دار ہیں یعنی حکومت اور اس کے ماتحت بارش سے نمٹنے والے بلدیاتی ادارے، لیکن کیا انہوں نے اپنی ذمے داری پوری کی؟

اس ملین ڈالر سوال کا جواب تو یکسر نفی میں ہی ہے۔ بھئی وجہ صاف ہے کہ بقرعید تھی اور عید تو اپنوں کے ساتھ اچھی لگتی ہے تو کراچی میں حکمرانوں یا متعلقہ اداروں کے افسران کا کون اپنا تھا جو وہ یہاں رہ کر عید مناتے اسی لیے تو وہ عید منانے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے پیاروں کے پاس چلے گئے اور ان کے پاس ایک عذر بھی تھا کہ بارشیں تو ابھی بہت ہونی ہیں تو اس سے نمٹتے رہیں گے لیکن اگر بقرعید پیاروں کے بغیر گزر گئی تو پھر ایک سال بعد ہی آئے گی اور ایک سال کس نے دیکھا ہے شاید ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، یا پھر اپنے اپنے عہدوں پر براجمان ہوں یا نہ ہوں تو سیاسی پروٹوکول کے ساتھ عید کی جتنی خوشیاں منانی ہیں منا لی جائیں۔

تو جناب عید سے قبل شروع ہونے والی بارش دھواں دھار انداز میں عید کے ابتدائی دو ایام میں اس طرح برسی کہ کراچی ڈوبتا رہا اور اہل نظر تماشا دیکھتے رہے وہ بھی دور بیٹھ کر اپنوں میں تکے کباب کھاتے اور کھلاتے ہوئے یہ الگ کہ کراچی والوں کی اکثریت نے تکے کباب کھانے کے بجائے متعلقہ اداروں کی بے حسی پر خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گزارا (قربانی کے جانوروں کا خون نہیں) اور جب یہ بھی ختم ہوگیا تو پھر صبر کے گھونٹ پی لیے اور سوچا کہ جو برسات کے باعث قربانی نہ کرنے کا ثواب نہیں لے سکے تو کیا ہوا صبر کا بھی تو بڑا ثواب ہے۔ جب کہ ان حالات میں ہمارے حکمراں تو اپنوں میں تکے بوٹیاں کھانے کے بعد لسی شسی یا پھر ستو پی کر سو رہے تھے چائے اس لیے نہیں پی کہ ایک ارسطو وزیر اس کے کم پینے کے نادر فوائد پہلے ہی بتاچکے تھے۔

اس موقع پر حکمراں اور متعلقہ ادارے کے حکام تو غائب رہے لیکن برستی بارش کے شور میں ایک مدھم سا شور حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم نے ضرور اٹھایا اور حکومت کو لتاڑا اور ساری ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ جیسے کہ ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اپنے پارٹی سربراہ کی تقلید کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکوں پر پانی بھی آتا ہے۔ تو جناب یہ کوئی انکشاف نہیں سب کو پتہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو سڑکوں پر پانی آتا ہے اور جن کو پتہ بھی نہ تھا ان کو آپ کے قائد محترم بلاول بھٹو واضح طور پر باور کراچکے تھے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ لیکن پانی زیادہ آئے یا بہت زیادہ اس کو سڑکوں اور آبادی سے نکالنا حکومت وقت اور اس کے ماتحت ذمے دار اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے وہ کہاں گیا؟ لیکن یہاں تو صورتحال یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ دوسرے دن ٹی وی اسکرینز پر جلوہ افروز ہوئے کچھ اپنی کہی بلکہ صرف اپنی ہی کہی اور پھر نکلے شہر کے دورے پر جس کے بارے میں کئی لوگوں نے آرا دی کہ وزرا اور ایڈمنسٹریٹر صرف ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں پانی اتر جاتا ہے۔ بات شرجیل انعام میمن کی ہورہی تھی جنہوں نے کراچی ڈوبنے کی وجہ بادل پھٹنا قرار دیا اور محکمہ موسمیات کی ذمے داری نبھاتے ہوئے اعداد و شمار بھی گنوائے ساتھ ہی کہا کہ کراچی میں برسات کے دوران ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ لیکن پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی میں بارشوں کے دوران 20 افراد جان کی بازی ہارے ان میں سے 13 اموات کرنٹ لگنے سے ہوئیں تو بقیہ سات زندگیوں کو موت کا تحفہ کس کا انعام ہے؟

بارشیں رکے دو دن ہوگئے اور یہ ابر رحمت اب پھر دستک دے رہی ہے لیکن شہر قائد کا حال یہ ہے کہ امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ

محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا

تو یہی حال کچھ اس وقت عروس البلاد کہلانے والے شہر کراچی کا ہے لیکن اس کا یہ حال اس سے “محبت” کے دعویداروں نے کیا ہے یقین نہ آئے تو گھر سے نکلیں اور دیکھ لیں پھر چاہے صدر ہو یا گرومندر، کورنگی ہو یا انڈسٹریل ایریا، اورنگی سائٹ ہو یا مضافاتی علاقے کئی علاقے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے نظر آئیں گے۔

قصہ مختصر بارشیں، پھر بارشیں اور پھر بارشیں، لہذا عوام حکومت کے آسرے پر نہ رہے جو کہ پہلے بھی کم ہی رہتی ہے اور ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات کر لے اب چاہے تو چھت پر ہی تمبو وغیر باندھ لے یا پھر جو اس کی سمجھ میں آئے کرلے کہ جن کا کام ہے ان سے تو کچھ ہو نہیں رہا ہے ہمارا تو یہ حال ہے کہ زہرہ نگاہ کے ایک شعر میں معمولی تبدیلی کے بعد یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ

نہیں نہیں، ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
تجھے بھی بھول گئے ہم اپنی خوشی کیلیے

شاید آپ یہ بھی پسند کریں