The news is by your side.

غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو “میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ سیاست میں اخلاقی گراوٹ تو پہلے بھی تھی، لیکن اب یہ معاملہ ناشائستہ زبان اور نامناسب بیانات تک محدود نہیں‌ رہا بلکہ بات نازیبا اشاروں تک جا پہنچی ہے۔

سیاسی قیادت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے لیکن آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اور ہمارے سیاست دان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس کی مذمت میں‌ شرم ناک کا لفظ برتنا بھی کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تندوتیز لہجہ اختیار کرنے کے ساتھ بدزبانی اور بداخلاقی کو بھی سیاست میں نام بنانے اور توجہ حاصل کا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

آج تمام مخالف جماعتیں عمران خان کو سیاست میں اخلاقی گراوٹ کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں اور ان کا اشارہ چند سال قبل دھرنے میں کنٹینر سے بلند ہونے والے “اوئے” کی جانب ہوتا ہے، لیکن کیا ملک کی سیاسی اخلاقیات کی بربادی صرف اسی ایک لفظ “اوئے” سے شروع ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی اور کرسیاں چل گئیں۔ ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں، سرکاری دعوؤں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کا اس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

لیکن پھر 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہر سچے اور دردمند پاکستانی کو رلا دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مدمقابل آئیں تو سرکاری مشینری نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا، سو مادر ملت بھی غدار قرار پائیں۔ ایوب خان نے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ بھی لیا۔

ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ‘فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان’ اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون قرار دیا تھا۔ یہ شاید وہ لمحہ تھا جب پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا لیکن پھر اس وقت ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کے دوران مادر ملت سے متعلق نامناسب الفاظ کہنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ یوں سیاست میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اب تو لگتا ہے کہ شعلہ بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ بداخلاقی بھی ایک سیاست دان کی خوبی گنی جاتی ہے جس پر ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ گومگو کی کیفیت میں ہے کہ جو لوگ ملک اور قوم کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں کیا وہ اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرسکتے ہیں؟

اس وقت کے اخبارات کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے مخالف لیڈروں کو مضحکہ خیز نام دیے۔ انہوں‌ نے کسی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘ کہا تو کسی کو ’چوہا‘ اور’ڈبل بیرل خان‘۔ 1977 کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی گراوٹ کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو جب کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ اس وقت “ہل” پی این اے کا انتخابی نشان تھا۔ لیکن یہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو اور ان کی فیملی کیلیے نامناسب زبان اور غیر اخلاقی نعرے بلند کیے گئے۔

سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ اس وقت بھی نکلا جب ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد لگ بھگ 10 سال تک پی پی پی اور ن لیگ میں اقتدار کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب بینظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں ملک کی وزیراعظم بنیں اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمراں ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تصاویر میں جعلسازی کے ذریعے اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک سمیت کیا کیا نام نہیں دیے گئے جس نے قوم کو ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہونے والی مہم کی یاد دلا دی۔

شیخ رشید جو آج عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں 90 کی دہائی میں یہ نواز شریف کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اسمبلی فلور پر بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ کہہ کر ان کی کردار کشی کی کوشش کی۔ آج یہی شیخ رشید بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مضحکہ خیز نام سے پکارتے ہوئے جملے بازی کے ساتھ اپنے سابق قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے نہیں چوکتے۔

90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمٰن نے بینظیر بھٹو کے عورت ہونے کو جواز بناکر ان کے اقتدار کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور جب انہیں بینظیر کے اگلے دور میں اقتدار میں شریک کیا گیا تو ان کی مخالف ن لیگ کی صفوں سے انہیں ڈیزل کہا جانے لگا۔

1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے اور دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی میدان سے باہر ہونے پر ان دونوں جماعتوں کو کچھ عقل آئی اور سیاسی اختلافات بھلا کر 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاہم اقتدار کی ہوس میں اس میثاق کی ساری شقوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اس میثاق کے کچھ عرصے بعد سے گزشتہ سال تک دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ایسی ٹھنی کہ الامان الحفیظ، ملک کا سب سے بڑا ڈاکو، زرداری سب سے بڑی بیماری، لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ کر لوٹی رقم نکالیں گے، جیسے اعلانات سرعام کیے گئے۔

جب مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا اور ٹاک شوز کا عروج ہوا تو پھر تو گویا سیاست نہیں خرافات رہ گئیں یاد ہوگا کہ ایک نجی ٹی وی کے مقبول ٹاک شو کے دوران اس وقت ق لیگ کابینہ کی وزیر کشمالہ طارق اور پی پی میں نئی نئی شامل فردوس عاشق اعوان کا ٹاکرا ہوا تو بات نیوز روم سے نکل کر بیڈروم تک جاپہنچی۔

عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور شیخ رشید کی توہین یہ کہہ کر کی کہ میں تو اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں۔ فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے القاب ایسے مختص کیے کہ آج پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اس کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔

اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کو بھگوڑا، حمزہ شہباز کے لیے کُکڑی، شہباز شریف کو شوباز شریف اور مریم نواز کیلیے جھوٹوں کی نانی و دیگر نام اور القاب دیے گئے ہیں‌ تو خاموش ن لیگ بھی نہیں رہی اور وہاں سے عمران خان کے لیے فتنہ خان، یوٹرن خان سمیت دیگر تضحیک آمیز نام سامنے آئے۔ فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ کہہ ڈالا بعد میں ان کی اپنی پارٹی کے منحرف رہنما نے بتایا کہ مولانا نے کہا تھا کہ ان کا یہ بیان سیاسی تھا۔

یہ تو سیاسی میدان میں سوقیانہ پن اور زبان و بیان کے برتنے میں پستی اور بداخلاقی کی چند مثالیں ہیں اگر اس قسم کی غیر اخلاقی زبان اور تضحیک آمیز بیانات کی تفصیل میں‌ جائیں‌ تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ الغرض ہمارے بعض غیر ذمے دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص نئی نسل متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے مابین ہونے والی چپقلش سے کیا جاسکتا ہے۔

نجی چینلوں کے بعد اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ” ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بلکہ انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔” افلاطون کے اس قول کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

ریاستیں جمہوریت سے مضبوط ہوتی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن غیرذمہ داری اور بداخلاقی اس حسن کو گہنا دیتی ہے۔ قوم سیاستدانوں کی زبان سے عرصہ دراز سے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سنتی آرہی ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلیے غیر مشروط طور پر آگے آئیں اور اخلاص کے ساتھ آپس میں ایک “میثاق اخلاقیات” پر دستخط کریں۔ سب سے پہلے پارٹی سربراہ خود کو اس کا پابند کرے اور پھر جو بھی اس کے خلاف جائے تو اس کی درپردہ پشت پناہی کے بجائے ایسے اقدام کیے جائیں جس سے ہمارے بارے میں ایک باوقار جمہوری ملک اور قوم کا تاثر دنیا کو جائے۔

escort
ataşehir escort
kadıköy escort
göztepe escort
şerifali escort
göztepe escort
kartal escort
maltepe escort
pendik eskort
anadolu yakası escort

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں