The news is by your side.

آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

پی ٹی آئی کے متوقع لانگ مارچ کی تاریخ کے حتمی اعلان سے قبل ہی آڈیو لیکس کے سلسلہ وار اجرا نے ملک میں‌ سیاسی ہیجان میں‌ مزید اضافہ کر دیا ہے، ساتھ ہی سائفر کا مردہ ہو جانے والا گھوڑا بھی دوبارہ نہ جانے کیوں زندہ کر دیا گیا ہے۔

رواں سال مارچ میں اس وقت کے وزیرِاعظم نے اپنے اقتدار کے آخری ایّام میں ایک عوامی جلسے میں کاغذ لہراتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے بیرونی سازش کا ذکر کیا تھا اور ان کا یہ بیانیہ عوام میں ہٹ ہوگیا۔ اس کے بعد کافی وقت تک سازش پر مبنی خط ہمارے سیاسی افق پر چھایا رہا جو درحقیقت ایک سائفر تھا۔

گزشتہ چھے ماہ سے سائفر ہے، سائفر نہیں ہے، سازش ہے، سازش نہیں مداخلت ہے، سازش کا بیانیہ من گھڑت ہے، موجودہ حکومت رجیم چینج کی سازش سے اقتدار میں آئی جیسے دعوے، الزامات اور انکشافات کی گونج سنائی دے رہی تھی جس میں‌ دو سیاسی جماعتوں‌ کی جانب سے بیانات سنتے سنتے قوم کے کان پک گئے۔ پھر فریقین کی جانب فوری نئے الیکشن کے مطالبے، مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے دبنگ اعلانات اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی پریکٹس شروع ہوگئی۔ اسی اثنا میں ان آڈیو لیکس نے مردہ ہوتے سائفر کے گھوڑے میں جان ڈال دی اور یوں بالآخر سائفر نکل ہی آیا۔

ستمبر جاتے جاتے ستم گر ثابت ہوا، لیکن کس کے لیے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بہرحال ستمبر کا آخری ہفتہ تھا، پی ٹی آئی کے حلقوں میں قہقہے لگ رہے تھے اور اس کے راہ نما بغلیں بجا رہے تھے کیونکہ ان کے سخت بلکہ بدترین سیاسی حریف وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی ایک دو نہیں بلکہ کئی مبینہ آڈیو ملکی میڈیا کے ذریعے افشا ہوئیں۔ جس کے بعد ن لیگ کے کیمپ کو جیسے سانپ سونگھ گیا تو پی ٹی آئی کے کیمپ میں شادیانے بج اٹھے، لیکن ابھی ان آڈیو لیکس کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ اچانک پی ٹی آئی چیئرمین کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور کی آڈیو بھی عوام کے سامنے آگئیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی بھتیجی، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے مابین 24 ستمبر سے پے در پے کئی ٹیلیفون کالز آڈیو لیکس کے نام پر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچیں جو سب کو ازبر ہیں۔ تاہم اس میں اپنی نوعیت کی سب سے سنگین اور عوامی مفاد کے خلاف جو گفتگو تھی وہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے اور انصاف صحت کارڈ بند کردینے سے متعلق تھی۔ ان میں مریم نواز کی طرف سے وزیراعظم سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور انصاف صحت کارڈ بند کر دینے کی بات کی گئی تھی۔

ان آڈیو لیکس نے ایک جانب جہاں ن لیگی قیادت کے عوامی ہمدردی کے دعوؤں اور دہرے معیار کی قلعی کھول کر رکھ دی وہیں ہیکر کی جانب سے جمعے کو ایسے متعدد انکشافات سے بھرپور اور سنسنی خیز آڈیو لیک کرنے کے اعلان نے حکم راں جماعت کے کیمپ میں بھی ہلچل مچائے رکھی، جس کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ن لیگ کے خلاف اکثر سیاسی اور عدالتی فیصلے جمعے کے روز ہی آئے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ جمعے کا دن ن لیگ پر بھاری ہوتا ہے، تاہم ہوا اس کے بالکل الٹ۔

ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کی تاویلیں اور پی ٹی آئی کی ملامتیں جاری تھیں اور قبل اس کے کہ ن لیگ پر بھاری جمعہ آتا بدھ 28 ستمبر کو ٹی وی چینلوں پر آڈیو لیک کی صورت میں ایک اور دھماکا ہوگیا، لیکن اس دھماکے نے توقع کے برخلاف پی ٹی آئی کے کیمپ میں ہلچل مچا دی۔

اس بار آڈیو لیک میں وزارت عظمیٰ کے آخری ایّام میں‌ عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے مبینہ گفتگو سامنے آئی۔ اعظم خان اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو سائفر سے متعلق آگاہ کرتے ہیں جب کہ عمران خان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اس پر کھیلیں گے، اس کے بعد دو دن کے وقفے سے اسی سے متعلق ایک اور آڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں عمران خان شاہ محمود قریشی سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اچھا شاہ جی ہم نے کل ایک میٹنگ کرنی ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں عمران خان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ایشو پر پلیز کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے۔ ایک ہفتے کے تعطل کے بعد ہیکر نے عمران خان کی ایک ہی دن میں مزید دو مبینہ آڈیوز لیکس کر دیں جس میں ایک میں وہ عدم اعتماد کے دنوں میں ممبران خریدنے اور دوسرے میں میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے کو ’’عوام کو گھول کر پلانا ہے‘‘ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کے کیمپ میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے اور تمام وزرا اور راہ نما تازہ دم ہو کر پی ٹی آئی کے خلاف میدان میں آگئے۔ پے در پے پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔ گویا پی ڈی ایم اور حکومت کے تنِ خستہ میں جان پڑ گئی جب کہ سائفر کا مردہ گھوڑا زندہ ہونے پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے میدان میں آگئیں۔

وزیراعظم، مریم نواز، بلاول بھٹو، سمیت پی پی پی اور ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آگئی اور شکوہ جوابِ شکوہ کی طرح بیانات، جوابی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسری جانب عمران خان نے اس سائفر کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر پبلک ہوجائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کتنی بڑی سازش ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ تک کہہ دیا کہ صدر مملکت نے سائفر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا ہوا ہے اگر وہ کہہ دیں کہ یہ غلط ہے، ہم پارلیمنٹ جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ اسی ہنگامے میں سائفر کے وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف ہوا۔ کابینہ نے سائفر کو من گھڑت قرار دے دیا تو پی ٹی آئی نے سائفر کی گم شدگی پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کر دیا۔

ان آڈیو لیکس کے بعد اب تک ن لیگ کی جانب سے جہاں پی ٹی آئی پر الزامات اور سیاسی وار جاری ہیں وہیں عمران خان اور پی ٹی آئی آڈیو لیکس کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے پیچھے ن لیگ کا ہاتھ ہے۔ جعلی آڈیوز کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کیلیے عمران خان نے اپنے ایک جلسے میں نواز شریف کی فیک آڈیو عوام کو سنا دی جس میں نواز شریف خود کو سب سے کرپٹ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

قومی سلامتی کمیٹی آڈیو لیکس اور سائفر کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرچکی ہے، اس کے کئی اجلاس بھی ہوچکے ہیں، تاہم آگے کیا ہوتا ہے، کتنی آڈیو لیک ہوتی ہیں اور کن اہم شخصیات کی ہوتی ہیں؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان تو نہیں کیا تاہم غالب امکان یہ ہے کہ یہ رواں ماہ اکتوبر میں ہی ہوگا، جس کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد سیل کرنے کیلیے اقدامات شروع کردیے ہیں اور وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں، دیگر صوبوں سے نفری بھی طلب کر رکھی ہے اور کے پی اور پنجاب سے انکار پر وفاق کی جانب سے انہیں انتباہی پیغام بھی دیا جا چکا ہے، جب کہ اس معاملے پر حکومتی اتحادیوں نے شہباز حکومت کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ لانگ مارچ کی صورت میں حکومت جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل فون اور میٹرو بس سروس بند رکھنے کے ساتھ دارالحکومت کے ہوٹلز میں مہمانوں کی چھان بین سمیت پکوان سینٹروں اور ساؤنڈ سسٹم کرائے پر دینے والوں کو بھی پابند کرنے پر غور کررہی ہے اور یہ تمام اقدامات حکومت کی پریشانی کو عیاں کر رہے ہیں۔

اسی تناظر میں وفاقی وزارت داخلہ نے 16 اکتوبر کو ملک کے قومی اسمبلی کے 11 حلقوں میں ضمنی الیکشن تین ماہ کیلیے ملتوی کرنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دے دی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پریس کانفرنس میں سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کرچکے ہیں جب کہ اس سے قبل حکومتی اتحادی ایم کیو ایم بھی بات کرچکی ہے اور سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ایک پارٹی سربراہ کے ساتھ اہم حکومتی عہدے پر براجمان شخصیت اور ایک حکومتی اتحادی جماعت کی جانب سے ایسے مطالبات کا منظر عام پر آنا مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کر رہے ہیں جس کے لیے اندرون خانہ کوششیں جاری ہیں۔

ملکی سیاست میں ہر دن ایک نیا تماشا ہو رہا ہے اور امید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں‌ عوام کو آڈیو لیکس اور لانگ مارچ کی صورت میں‌ بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے گا۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں