The news is by your side.

ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔

تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کے لیے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے تھے جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں