The news is by your side.

ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان میں‌ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ارشد شریف ہم میں نہیں رہے۔

وہ کینیا میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور سویرا ہونے کو تھا۔ عوام کی اکثریت جو محوِ خواب تھی، جب اپنے موبائل فون کی گھنٹیوں اور میسج ٹونز پر بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا محبوب اینکر پرسن انھیں‌ دائمی جدائی کا غم دے گیا ہے۔

ارشد شریف ہر دل عزیز اینکر پرسن اور پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام تھا جن کی الم ناک موت پر ہر پاکستانی افسردہ و ملول ہے اور بالخصوص صحافتی حلقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ارشد شریف ایک نڈر اور بے باک صحافی مشہور تھے جو نہ تو کبھی بکے اور نہ ہی کسی طاقت کے آگے سَر جھکایا۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی دباؤ میں‌ آ کر حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور شاید یہی ارشد شریف کا ‘جرم’ بھی تھا۔ پرچمِ حق و صداقت بلند رکھنے کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں زمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

ارشد شریف کی موت کی خبر پر یقین نہیں آرہا۔ ہر بار ان کے نام کے ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھرپور چہرہ سامنے آجاتا ہے اور انہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ پاکستان یہ بے باک اور نڈر صحافی بوڑھی ماں کا واحد سہارا بھی تھا اور چار بچّوں کا باپ بھی جسے سچ عوام کے سامنے لانے پر دو درجن سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر یہ مقدمات کسی دورِ آمریت میں نہیں بلکہ جمہوری دور میں پی ڈی ایم کی حکومت میں بنائے گئے۔ اس پر بہی خواہوں نے ارشد شریف کو کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دیا۔ (یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران ریاض اسیری کا مزہ چکھ چکے تھے، صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے، سمیع ابراہیم، اوریا مقبول جان اور ایاز امیر بھی عتاب شکار تھے، صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور انھیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے) ان حالات میں‌ ارشد شریف نے اپنا وطن چھوڑا تھا۔

ذرایع ابلاغ کے مطابق ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب کیجاڈو کے علاقے میں موجود تھے جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔ اس وقت ارشد شریف کار میں اپنے ایک دوست کے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کینیا کے محکمۂ پولیس کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ارشد شریف کہا گیا کہ پاکستانی صحافی کی موت پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ایک بچّے کے اغوا کی اطلاع پر پولیس اہل کار گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے اور سڑک بند تھی جہاں شناخت نہ ہونے اور غلط فہمی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔

پولیس کے اس موقف پر دنیا اور خود وہاں کا مقامی میڈیا بھی حیران ہے اور اس ‘غلط فہمی’ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بچّے کے اغوا میں ملوث گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی کی نمبر پلیٹیں یکسر مختلف تھیں۔ پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ بالفرض اس گاڑی میں بچّہ تھا بھی تو گاڑی نہ روکنے پر پولیس اس کے ٹائروں پر فائر کرتی اور پھر ملزمان پر قابو پاتی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور پولیس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کار سواروں کو کیوں‌ اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا؟ اسی طرح اگر عقب سے یا سامنے سے گولی چلی تو ارشد شریف کے سَر کے درمیانی حصّے پر گولی کا نشان کیوں؟ اس واقعے میں صرف ارشد شریف ہی کیوں نشانہ بنے، ان کے ساتھ بیٹھا ڈرائیور پولیس کی فائرنگ سے کیسے محفوظ رہا اور اب وہ کہاں ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اس افسوس ناک واقعے کی شفاف تحقیقات اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے آنے تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کے کئی ایسے واقعات کی طرح ارشد شریف کی فائل کو بھی کچھ عرصہ بعد ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔

ارشد شریف نے 22 فروری 1973 کو کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر محمد شریف کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں فری لانس صحافی کی حیثیت سے کیا۔ ارشد شریف نے یوں تو صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹنگ ان کا خاصہ تھا۔ ارشد شریف نے کئی سیاست دانوں کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ انھوں نے ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اے آر وائی نیوز پر ان کا ٹاک شو ’’پاور پلے‘‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا اور یہ ایک مقبولِ‌ عام پروگرام تھا۔ اس پر ارشد شریف نے 2016 میں بہترین تحقیقاتی صحافت کے زمرے میں ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں حکومتِ پاکستان نے ارشد شریف کو ان کی صحافتی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔

ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا کر وہاں کی حکومت نے انھیں 48 گھنٹوں میں ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص یہ خبریں گردش میں رہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے یو اے ای پر ارشد شریف کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اور یہ صحافی کسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان واپس آنے کے لیے تیّار نہیں‌ تھے۔ انھوں نے فوری طور پر کینیا جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستانیوں کو ایئرپورٹ آمد پر ویزے کے حصول کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس ملک کا ایک دور دراز علاقہ ان کا مقتل ثابت ہو گا۔

ارشد شریف کی اس ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں‌ موجود دانش وروں، صحافیوں‌ اور عام لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ امریکا نے بھی کھل کر اس واقعے کی مذمت کی، جب کہ حکومتِ پاکستان نے مکمل تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، صحافتی تنظمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔

ایک طرف پاکستانی عوام بالخصوص ارشد شریف کے مداح اور صحافی برادری غم زدہ اور صدمے میں‌ تھی، لندن میں موجود ن لیگ کی قیادت نے دیوالی کا کیک کاٹ رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی تھی کہ مریم نواز کا ایک ٹوئٹ سامنے آگیا جس میں‌ انھوں نے ارشد شریف کی میّت کے تابوت کی تصویر کے ساتھ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔ اس ٹوئٹ پر مریم نواز کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انھیں بے حس اور سنگ دل قرار دیا جب کہ صحافیوں نے ان کی اس ٹوئٹ کو غیرانسانی رویہ کی عکاس قرار دیا جس کے بعد مریم نواز کو نہ صرف ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی بلکہ انھوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ ایک جانب مریم کے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا تعزیت اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے بیانات دے رہے تھے اور دوسری طرف لندن میں موجود مریم نواز یہ ٹوئٹ کررہی تھیں جو بدترین تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا جب ارشد شریف کے اہل خانہ نے مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا اور میّت کی وطن واپسی کے منتظر تھے۔

ارشد شریف کی میّت وطن واپس آئی تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر اسپتال منتقل کیا گیا۔ ورثا کی درخواست پر پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کی رہائش گاہ پر اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔

اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کیس میں‌ مکمل تفتیش اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے اور پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہو رہی ہے، لیکن کیا یہ ٹیم حقائق ہمارے سامنے رکھ سکے گی اور عوام یہ جان سکیں‌ گے کہ حق اور سچ کے لیے آواز بلند کرنے اور اس راستے میں ڈٹ جانے والا یہ صحافی وطن چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا اور اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں