آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ٹی 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس بار کون ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے گا اور کون خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا، یہ فیصلہ صرف ایک میچ کی دوری پر ہے۔
اتوار 13 نومبر کو میلبرن میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔
View this post on Instagram
اگر مگر کی صورتحال میں قوم کی دعاؤں اور پرفارمنس سے پاکستان کی ٹیم ایک بار پھر 1992 کی تاریخ دہرانے کیلیے میلبرن میں اترے گی۔ میدان بھی 30 سال پرانا ہے، ٹیم بھی وہی انگلینڈ کی ہے، قوم کو امیدیں ہیں کہ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر پورے ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرے گی لیکن کرکٹ بائی چانس ہے اور یہ کھیل اتنا غیر متوقع ہے کہ بعض اوقات جب تک آخری گیند نہ پھینک لی جائے تب تک کچھ بھی کہنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ ٹورنامنٹ کے آغاز میں پاکستان اور بھارت کا سنسنی خیز میچ ہوا۔
آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے دوران اگر مگر کی صورتحال اور کشمکش کی فضا میں جس طرح اپنی محنت اور قوم کی دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور سیمی فائنل میں با آسانی نیوزی لینڈ کو زیر کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے بھارت کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے اسے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یوں بھارت پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے اپنے بنائے گڑھے میں خود ہی گر گیا ہے، ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
View this post on Instagram
View this post on Instagram
ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے ان یادوں کو مزید تقویت بخشی، کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں شکست دی تھی اور میدان بھی آسٹریلیا کا تھا، اب جب کہ ٹرافی صرف ایک ہاتھ یعنی ایک میچ دور ہے اور مدمقابل بھی تو قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل فائنل سے قبل دیکھا گیا تھا اور اب پاکستانیوں کی ہر بیٹھک میں یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔
اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔
ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا، قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچوں کے حسب منشا نتائج بھی ضرورت بن گئے، پھر قومی ٹیم بیدار ہوئی اور مسلسل تین میچز میں مخالف ٹیموں کو پچھاڑتی ہوئی اگر مگر کے ساتھ ہی سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی اور یہی سب کچھ تو 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا تو قوم کو لگا کہ یہ 92 کے ورلڈ کپ کا ہی ری پلے ہے پھر قوم نے اس بار وہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ جہاں کھلاڑی میدان میں اپنی جان ماریں گے وہیں شائقین اسٹیڈیم میں ان کا جوش بڑھائیں گے اور قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھنے کے ساتھ دعائیں بھی کرے گی جب کہ بعض بزرگ تو میچ شروع ہوتے ہی مصلیٰ سنبھال لیں گے۔
جس طرح 25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔
جس طرح 1992 میں پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلے باز نہ تھا، اسی طرح موجودہ ٹیم میں بھی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہ تھا اور مڈل آرڈر پر سب نے سوالات اٹھا دیے تھے جب کہ سب سے زیادہ پریشان کن بات اس کامیاب اوپننگ پیئر بالخصوص کپتان بابر اعظم کا آؤٹ آف فارم ہونا بھی تھا جو سیمی فائنل کے قبل 5 میچوں میں صرف 39 رنز ہی اسکور کر سکے تھے۔ جس طرح 92 میں ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اسی طرح موجودہ زمانے کے ماہرین کرکٹ نے بھی بابر اعظم کی زیر قیادت ٹیم کے پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھنے کی پیشگوئی کی تھی لیکن دونوں بار یہ پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔
ایک اور مماثلت کہ 92 میں قومی ٹیم جب آسٹریلیا روانہ ہوئی تو سوائے جاوید میانداد کے کوئی قابل بھروسا بلے باز نہیں تھا لیکن جب ٹیم کپ کے ساتھ واپس آئی تو اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔
اس بار بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہیں تھا لیکن ٹیم واپس آئے گی تو امید ہے کہ ٹرافی کے ساتھ محمد حارث، افتخار احمد جیسے مستقبل کے ہیروز ساتھ لے کر آئے گی۔
View this post on Instagram
تاہم سنسنی خیز فائنل سے قبل آسٹریلوی محکمہ موسمیات نے فائنل کے روز میلبرن میں بارش کی پیشگوئی کی ہے یعنی پاکستان کا مدمقابل صرف انگلینڈ نہیں بلکہ موسم بھی ہوگا، میچ کے لیے ریزرو ڈے بھی ہے لیکن اگر دونوں دن میچ مکمل نہ ہوسکا تو پھر دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی ٹیم نے جس طرح سیمی فائنل جیتا، اور قوم کو خوشیاں منانے کا موقع دیا، اس کے بعد اب کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں بلکہ پوری قوم آرزو مند ہے کہ فائنل کی فاتح بن کر ہماری ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے۔ ہم سب کی دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔