سموسہ برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہے۔ زبان کے چٹخارے اور ذائقے کے لیے تلی ہوئی غذاؤں میں سموسہ وہ نمکین پکوان ہے جسے ہلکی پھلکی بھوک مٹانے اور اکثر چائے کے ساتھ شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تکونی شکل کا یہ خوش ذائقہ سموسہ کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا کیا جوان سب ہی کے من کو بھاتا ہے۔ اس نمکین ڈش کو مہمانوں کی آمد پر بھی چائے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب کو مرغوب سموسے کو جب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان نے صحت کیلیے خطرہ اور ایٹم بم قرار دیا تو ایک بحث شروع ہو گئی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عفان کی جو ‘تحقیق’ سامنے آئی، اس پر جہاں ان کی تائید کرنے والے تعداد میں کم نہ تھے، وہاں سموسے کے ایسے عاشقوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے میمز کی بھرمار کر دی۔ کئی دل جلوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر سموسہ کھائے بغیر بھی مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کھا کر مرا جائے۔ اب سموسے سے ایسے لازوال عشق کی کوئی اور مثال ملے گی؟
’’سموسہ‘‘ دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو یہ ہر چھوٹے بڑے کی پسند ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا سالگرہ، افطار ہو یا اچانک آنے والے مہمانوں کی تواضع مقصود ہو، سموسہ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تکون شکل کا وہ سموسہ عام ہے جسے آلو بھر کر تلا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ 90 کی دہائی کی بالی ووڈ فلم کا ایک گیت بھی سموسے پر تھا۔ آلو کے علاوہ سبزی کا آمیزہ، قیمہ اور چکن والا سموسہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ انواع و اقسام کی چٹنیاں اس کے ذائقے کو گویا ‘تڑکا’ لگا دیتی ہیں۔
آج ہم آپ کو اس من پسند سموسے کی صدیوں پرانی دلچسپ تاریخ سے آگاہ کریں گے۔
پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ سموسہ اسی خطے کی ایجاد ہے اور اس نمکین ڈش کو مقامی لوگوں نے تیار کیا اور اسے رواج دیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان کی وجہ سے چھڑنے والی بحث نے ایک دل چسپ تکرار کو بھی جنم دیا۔ سموسے کے دیوانے پاکستانی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد اس دوران خود کو ‘فادر آف سموسہ’ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن سموسہ متحدہ ہندوستان یا بٹوارے کے بعد کسی ملک کے باورچیوں کی اختراع نہیں ہے۔اس کی تاریخ ہزار سال سے بھی پرانی اور دل چسپ ہے۔
اس پکوان نے دسویں یا گیارھویں صدی عیسوی میں وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی شکل پائی تھی۔ ہزار ہا برس کے تمدن اور ثقافت سے متعلق معلومات اکٹھا کرتے ہوئے محققین نے جانا کہ سموسہ وہ ڈش ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ دسویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عرب باورچیوں کی کتابوں میں پیسٹریوں کو ‘سنبوساک’ کہا گیا ہے، جو فارسی زبان کے لفظ ‘سانبوسگ’ سے آیا ہے۔
تاریخ پڑھیں تو سموسے کا ذکر سب سے پہلے ہندوستان سے ہزاروں میل دور قدیم سلطنتوں میں ملتا ہے۔ سب سے پہلا تذکرہ فارسی مؤرخ ابوالفصل بیہقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہقی میں کیا۔ انھوں نے غزنوی سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا جاتا تھا۔ اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔
وہاں سے یہ سنبوساک سفر طے کرتا برصغیر آیا اور نجانے کتنے نام اپنانے اور شکلیں بدلنے کے بعد سموسہ کہلایا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دہلی میں مسلم سلطنت میں سموسے کو جنوبی ایشیا میں متعارف کروانے والے مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے باورچی تھے جو یہاں سلطان کے لیے کام کرنے آئے تھے۔
مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی سموسے کی لذت سے آشنا ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں محمد بن تغلق کے دستر خوان پر چنے گئے کھانوں اور لوازمات میں شامل سموسے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اسے قیمے اور مٹر سے بھری ہوئی پتلی پرت والی پیسٹری لکھا ہے۔
بات کی جائے دیگر ممالک میں سموسے کی تو پاک وہند میں سموسے کو تیل میں تلا جاتا ہے تاہم وسط ایشیائی ترک بولنے والے ممالک میں اسے تیل میں تلنے کے بجائے پکایا جاتا ہے۔ جسے چھوٹی بھیڑ کے گوشت، پیاز، پنیر، کدو سے بھرا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی سموسہ تیار کیا جاتا ہے لیکن وہ ہمارے روایتی سموسوں کی طرح نہیں ہوتا اور تلنے کے بجائے بیک کیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں نمکین ہی نہیں میٹھا سموسہ بھی کھایا جاتا ہے اور اس کا یہ ذائقہ بھی سب کو پسند ہے جسے عرف عام میں ’’گجیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو سبزیوں کی جگہ شکر، دودھ کا ماوہ اور خشک میوہ جات سے بھرا جاتا ہے اور پھر اصلی گھی میں تل کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈش خوشی کی تقریبات میں خاص طور پر بنوائی جاتی ہے۔
یہ ہندوستان میں روایتی مٹھائی کی دکانوں اور عام بیکریوں پر تیّار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ سموسہ جو کبھی خوانچہ فروشوں اور حلوے مانڈے کی چھوٹی دکانوں پر ملتا تھا اب بالخصوص شام کے اوقات میں فاسٹ فوڈ کے مشہور مراکز پر بھی فروخت ہورہا ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی اعلیٰ درجے کی بیکریاں اور نامی گرامی سوئیٹ شاپس پر بھی سموسے بڑے اہتمام سے تیّار کیے جارہے ہیں۔
سموسہ برصغیر اسی راستے سے پہنچا جس سے 2 ہزار برس پہلے آریائی نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ یہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے سے یہاں متعارف ہوا۔ سموسے کے اس طویل سفر کی کہانی کو بھارتی پروفیسر پنت نے ’سم دھرمی ڈش‘ کہہ کر سمیٹ لیا ہے، جس کا مطلب ہے تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جو برصغیر سے سہانے مستقبل کا خواب سجائے برطانیہ گئے تھے۔ اس طرح ایران کے اس شاہی پکوان کا آج دنیا کے کئی ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔
ہم نے سموسے کے ہر دل کی پسند ہونے کا ذاتی مشاہدہ بھی کیا جو آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کچھ اس طرح ہے کہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں 25 سال قبل کھانے پینے کی ایک دکان ہوتی تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں صرف تین اشیا ہوتی تھیں اور دور دور سے لوگ یہاں کھانے کے لیے آتے تھے۔ کھانے پینے کی تین چیزوں کی یہ تکون سموسہ، لسّی اور امرتی پر مشتمل تھی۔ اس ٹرائیکا کے بارے میں جان کر جہاں ہماری نئی نسل کو حیرت ہو گی، وہیں کئی قارئین ایسے بھی ہوں گے جو اس ذائقے سے آشنا ہوں گے۔
معلوم نہیں آج یہ دکان قائم ہے یا نہیں لیکن ایک بار جب ہمارے منہ کو یہ ذائقہ لگا تو کھانے پینے کی اس بے جوڑ تکون والی دکان پر دوسرے شوقین افراد کی طرح ہم بھی کئی بار گئے تھے۔
اب اگر بات کی جائے ڈاکٹر عفان کی جو ماہرِ امراض جگر ہیں تو ان کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سموسے میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ نقصان دہ ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر زیادتی کسی بھی چیز کی ہو بری ہوتی ہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ سموسے کھانا بے شک نہ چھوڑیں مگر اس میں توازن اور اعتدال ضروری ہے کہ لذّتِ کام و دہن کا سلسلہ بھی چلتا رہے اور صحت بھی برقرار رہے۔