The news is by your side.

شموئل احمد کا ”سنگھار دان“: علامت کی کارفرمائی اور جادوئی حقیقت نگاری

شموئل احمدکی ایک وجہِ شہرت جنسی نفسیات پر مبنی ان کی کہانیاں ہیں۔ انھوں نے افسانہ اور ناول دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہےاور اس میدان میں موضوع کی مناسبت سے جنسی نفسیات کا بیان ان کی انفرادیت ہے۔

آج شموئل احمد ہمارے درمیان موجود نہیں‌ ہیں۔ رواں ماہ کی25 تاریخ کو شموئل احمدکا انتقال ہوگیا۔ ان کاتعلق ہندوستان سے تھا۔ افسانہ نگار، شاعر اور نقّاد رفیع اللہ میاں‌ نے شموئل احمد کے افسانے ”سنگھار دان“ کی خصوصیات پر ایک مضمون سپردِ قلم کیا تھا جو ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔

جب ہم جادوئی حقیقت نگاری کی بات کرتے ہیں تو بالعموم سپر نیچرل فکشن بالخصوص فینٹسی کے ساتھ تصورات کو مدغم کر جاتے ہیں۔

فینٹسی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ ایک متوازی دنیا میں جنم لیتی ہے جب کہ میجکل ریئلزم ہمارے آس پاس کی دنیا میں پھلتی پھولتی ہے کیوں کہ اس میں توہمات اور رسومیاتی علائم ہی نہیں بلکہ دیہات کی عجیب و غریب روایات کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ ناول اور بالخصوص افسانے میں علامتوں کے سلسلے میں جادوئی حقیقت نگاری سے اس کے انسلاک کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہوا جاسکتا ہے جو درحقیقت میجکل ریئلزم کو درست طور پر نہ سمجھے جانے کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ علامت اور جادوئی حقیقت نگاری کے مابین کوئی بیر نہیں ہے۔

فکشن میں علامت کا ہونا بدیہی امر ہے۔ یہ ہر اس متن میں موجود ہوتی ہے جو کسی واقعے کی ہوبہو رپورٹنگ سے اوپر اٹھ کر احساس اور جذبے کے ذریعے اظہار کرتا ہے۔ چوہدری کا مجو کی بھینس کو گولی ماردینا ایک خبر ہے لیکن یہ تینوں اپنی اپنی جگہ علامت بن سکتے ہیں اگر ان کے احساسات اور جذبات کو بھی مذکور کر دیا جائے۔ چناں چہ جادوئی حقیقت نگاری میں اشیا کا علامت کی صورت میں سامنے آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔

شموئل احمد کے افسانے ”سنگھار دان“ میں سنگھار دان کے دو کردار ہیں۔ ایک کردار وہ جو نسیم جان کے کوٹھے پر ہے اور ایک وہ ہے جو برج موہن کے گھر پر ہے۔ کوٹھے پر اس کا کردار علامتی ہے یعنی وہ وراثت میں چلا آرہا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوں کہ اس کی جگہ کوئی بھی سنگھار دان وہی کام کرسکتا ہے جو یہ مخصوص سنگھار دان کرتا ہے۔ برج موہن کے بیڈروم میں آکر اس کا کردار پراسرار طور پر بدل گیا ہے جسے برج موہن محسوس کررہا ہے۔ یہ تبدیلی صرف برج موہن کو اس لیے محسوس ہوتی ہے کیوں کہ وہی اسے چھین کر لایا ہے اور اسی وجہ سے اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا ہے۔ اسے مکافات عمل کا بھی احساس ہے۔ افسانے کی ابتدا میں یہ جملے دیکھیں: ”برجموہن کا دل انجانے خوف سے دھڑکنے لگا۔ آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا۔ یہ خوف برجموہن کے دل میں اسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھار دان لوٹا تھا۔۔۔۔“

سنگھار دان کی وجہ سے جو تبدیلی رونما ہونے لگی تھی اس کا آغاز بظاہر وہم سے ہوتا نظر آتا ہے۔ برج موہن کو اپنے برے عمل کے برے انجام کا خوف بری طرح لاحق ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس وہم کو افسانہ نگار نے وہم نہیں رہنے دیا بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیت سے ایک ٹھوس انجام میں تبدیل کر دیا۔ اس کے لیے اسے سنگھار دان سے جادوئی کام لینا پڑا تاکہ وقت کی طویل پگڈنڈی پر سے گرد کو جھاڑا جاسکے اور مکافات عمل‘ جس کے رونما ہونے میں وقت لگتا ہے‘ کی صورت میں فوری نتیجہ برآمد کیا جاسکے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو دوسرے حصے میں سنگھار دان مفعول علامت سے فاعل علامت میں تبدیل ہوا ہے۔ معمول کی دنیا میں کوئی جامد چیز فاعل نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسی کوئی چیز فاعل بن کر سامنے آرہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کسی انسان نے اس پر جادو کر کے اس میں جادوئی خواص پیدا کر دیے ہیں (سائنسی سطح پر بھی مشینوں کو ضمناً فاعل بنایا جاتا ہے)۔ جادو کی یہ قسم ہماری معمول کی دنیا کا ایک حصہ ہے یعنی یہ محض متصورہ نہیں ہے جیسا کہ فینٹسی یا متوازی دنیا اور اس کے اندر رونما ہونے والے واقعات کا تصور کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسانے کے سنگھار دان پر کس نے جادو کیا؟ ظاہر ہے کسی نے نہیں کیا۔ پھر اس میں جادو جیسی خصوصیت کیسے آگئی؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ان حالات پر غور کرنا ضروری ہے جن میں اس واقعے نے جنم لیا ہے۔

جس شہر میں یہ واقعہ رونما ہوا وہاں فسادات برپا تھے۔ فسادات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے‘ یہ اہم بات نہیں ہے جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ شہر کے ان فسادات کے دوران کوئی انتظامیہ نظر نہیں آرہی تھی جو لوگوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرتی۔ یعنی انسانی المیوں کو جنم دیتے ان لمحات میں ہیومن مینجمنٹ غیر موجود تھا۔ یہ تیسری دنیا کے ملکوں کا المیہ ہے کہ عام لوگ غارت گروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے شہروں پر اختیار رکھنے والوں ہی کا ہاتھ ہوا کرتا ہے جو ان فسادات کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں تخلیق کار جس کا شعور اس ایب سینس کو قبول نہیں کررہا ہے، مجبورا ایک ایسے ذریعے سے یہ کام لیتا ہے جو عرف عام میں ناممکن ہے اور سائنسی سوچ سے متصادم ہے‘ جو خاصی حد تک توہمات پر بھی مبنی ہے؛ کیوں کہ انسان کے دل میں اپنے گناہ کی وجہ سے ایک ڈر چھپ جاتا ہے کہ کہیں اس کی پاداش میں فطرت ان سے انتقام نہ لینا شروع کردے۔ سو، مصنف کو سنگھار دان کا قصہ اور سنگھار دان کی یہ علامت گھڑنی پڑی اور اس میں جادو کے اثرات شامل کرنے پڑے۔

اس زاویے سے دیکھیں تو سنگھار دان دونوں مقامات پر مختلف چیزوں کی علامت ہے۔ ایک جگہ اگر خاندانی وراثت کی علامت ہے تو دوسری جگہ شہر میں انسانی مینجمنٹ کی غیر موجودی میں فیصلے کی طاقت کی علامت ہے۔ ایک جامد چیز کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے افسانہ نگار کو اسے جادوئی خواص کا حامل بنانا پڑا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی کردار کے توہم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ یعنی عین ممکن ہے کہ مرکزی کردار کو اپنے جرم کی پاداش میں محض وہم کا شکار ہونا پڑا ہو اور اسے نفسیاتی طور پر وہ چیزیں دکھائی دے رہی ہوں جو حقیقتاً ویسی نہ ہوں۔ یہی ابہام اور تذبذب اس فن پارے کو جادوئی حقیقت پسندی کے دائرے میں لاتے ہیں جب کہ سائنس فکشن اور فینٹسی میں قطعیت ہوتی ہے۔

اگر ہم افسانہ نگار کا متن کے ساتھ رویے پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے عمل کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے سنگھار دان کا خاندانی پس منظر ثانوی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور طوائف کے لیے اس کی اہمیت اتنی ہی نظر آتی ہے کہ وہ خاندانی ورثے کے طور پر اس تک پہنچا ہے۔ لیکن ایک عام شخص جب ظلم کرکے اسے چھینتا ہے تو یہ بے جان آئینہ انتقام کی علامت بن جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ورثہ چور اور غاصب پر اس طرح مسلط نہیں ہوتا کہ اس کی تہذیب و تمدن کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دے۔ اس لیے اس علامت کا استعمال ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہ تجرید ہے یا جادوئی حقیقت نگاری۔ نسل در نسل وراثت میں چلی آرہی اشیا کے ساتھ انسان کچھ غیر عقلی تصورات بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ چوں کہ یہ تصورات انسان ہی کے توسط سے اشیا سے جڑتے ہیں اس لیے ان کی نوعیت ودیعی نہیں بلکہ انسلاکی ہے۔ یہ تصورات جب بھی جہاں بھی اپنے پر پھیلانا شروع کرتے ہیں تو دراصل ان کا میدان عمل اشیا کی اپنی ذات نہیں بلکہ انسان کا دماغ ہوتا ہے جہاں وہ توہمات کی صورت میں مختلف اشکال اختیار کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شکل انتقام کی بھی ہے۔ واضح رہے علامت خود بخود اپنے مطلوب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ علامتوں کا ایک معنیٰ سامنے کا ہوتا ہے اور دوسرا اس معنیٰ کے پیچھے موجود ہوتا ہے۔ علامت کی یہی تہ داری کثرت معنی کو جنم دیتی ہے۔ یہاں سنگھار دان ایک خاموش کردار کی طرح ہے اور سامنے کا معنیٰ سنگھار دان کی اس حیثیت میں موجود ہے‘ جیسے بہ زبان خاموشی مسکراتے ہوئے چلتے پھرتے انسانی کرداروں کو دیکھ رہا ہو اور ان سے اپنا پسندیدہ کھیل کھیل رہا ہو؛ ایک انتقامی کھیل۔

یعنی پہلے معنیٰ میں سنگھار دان انتقام کی علامت ہے اور دوسرے معنیٰ میں یہ انسانی انتظام و انصرام کی عدم موجودی سے ابھرنے والی انسان ہی کی بے بسی کی صورت میں طاقت اور اختیار کی ماورائی خواہش کی علامت ہے۔

اس افسانے کے بین السطور دو بنیادی حقیقتیں کارفرما ہیں۔ انھیں سمجھنا گویا اس افسانے کے مغز کو سمجھ لینا ہے۔ ایک یہ کہ معاشرہ بنیادی ضرورتوں کے تحت آپس میں جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک بنیادی ضرورت پرامن ماحول بھی ہے۔ اسے قائم رکھنا سب کی ذمے داری ہے خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر ماحول پرامن نہیں رہا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ سب کی زندگی خطرے میں ہے۔ دوم یہ کہ جمادات کی نوعیت ہمیشہ حیوانات کے مقابل ثانوی ہوتی ہے۔ یہ سہولت اور ثقافت سے جڑے ہوتے ہیں۔ جمادات سے حیوانی محبت بھی فطری ہے۔ یہ اپنے اندر ثقافتی کشش رکھتے ہیں۔ ان دو حقیقتوں نے مل کر اس افسانے کی تجسیم کی ہے۔ لیکن کوئی بھی دو حقیقتیں مل کر جادوئی حقیقت نگاری کو جنم نہیں دے سکتیں۔ مثال کے طور پر انہی دو کو لے لیں۔ ایک طرف خاندانی وراثت کا مظہر آئینہ ہے۔ دوسری طرف شہر میں مخدوش حالات اور انتظامیہ کی مصنوعی عدم موجودی۔ فسادات میں نہ جانے کتنی خاندانی اشیا ادھر سے ادھر ہوجاتی ہیں لیکن ان سے کوئی غیر معمولی تو کیا معمولی فسانہ بھی جنم نہیں لیتا۔ کیوں؟ کیوں کہ حقیقی دنیا میں وقت کا فاصلہ اہم ہوتا ہے۔ اگر کہیں مکافات عمل وجود میں آتے بھی ہیں تو اس میں ایک عرصہ گزرتا ہے۔ جسے عموما لوگ نوٹ نہیں کرپاتے کیوں کہ وقت کی گرد وجوہ کو دھندلادیتی ہے۔ لیکن فکشن میں ان وجوہ سے دھول ہٹانے کے لیے اور ان دو حقیقتوں کو جوڑنے کے لیے کچھ غیر معمولی نتائج دکھانے ہوتے ہیں۔ نتائج جتنے غیر معمولی ہوں گے‘ جوڑنے کا مسالہ اتنا ہی ماورائی ہوگا۔ یہاں اس مسالے نے جادوئی حقیقت نگاری کی شکل اختیار کی ہے۔ اس مسالے ہی نے دو حقیقتوں کو جوڑ کر ایک ایسا نتیجہ دیا ہے جو بظاہر ممکن نہیں ہے لیکن اگر وقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ لوٹ مار کرنے والے اس خاندان کو بہت آگے جاکر یا حتیٰ کہ اگلی نسل میں خاندان کے کسی ایک رکن کی صورت میں طوائف یا دلادلی سے واسطہ پڑجائے۔

یہ ان افسانوں میں سے ایک ہے جو اپنی آخری سطر میں نہیں بلکہ ابتدا یا جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے تیزی سے کھلتے جاتے ہیں۔ سنگھار دان اپنے اختتام سے بہت پہلے ہی قاری کو سنسنی خیز انجام کے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ چوں کہ اختتام کا سحر تو ختم ہوچکا ہوتا ہے لیکن جو کچھ وقوع پذیر ہورہا ہوتا ہے وہ اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ قاری کے پاس سوائے اس خواہش کے کچھ نہیں رہ پاتا کہ کاش اس افسانے کے مرکزی کردار کو ایک موقع دیا جائے سدھرنے کا۔ یہ خیال بھی ذہن میں ابھر سکتا ہے کہ لوٹ مار کرنے والے نے تو صرف ایک سنگھار دان ہی چرایا ہے‘ اس جرم کی اتنی بڑی سزا ناقابل فہم ہے۔ یہ خیال اس افسانے کو سرسری دیکھنے کا نتیجہ ہوسکتا ہے کیوں کہ افسانہ محض ایک طوائف کے سنگھار دان کا نہیں ہے بلکہ یہ بگاڑ کے آخری سرے پر پہنچے ہوئے اس معاشرے کا فسانہ ہے جہاں کسی بھی بہانے فسادات کی صورت میں کسی کے بھی جان و مال کو تلف کیا جاسکتا ہے اور روک ٹوک کا کوئی تصور موجود نہیں ہوتا۔ اس صورت میں بھی یہ افسانہ علامتی رنگ لیے ہوئے ہے یعنی اس خاندان کی بھیانک تقلیب ایک انسان کے جرم کی سزا نہیں بلکہ پورے معاشرے کو برباد کرنے کے ذمے داروں کے لیے تازیانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں سفاکیت کی زیریں لہر اتنی پرقوت ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن مکافات عمل پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا؛ اور ہونی ہو کر رہتی ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں